ایسا امریکہ ہی میں ہو سکتا ہے!
ارونگ ٹیکساس (امریکہ) کے14سالہ طالب علم احمد محمد کو امریکہ میں ایک نئے انداز کی مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ عوامی ہیرو بن گیا ہے، حتیٰ کہ اُسے صدر اوباما کی طرف سے وائٹ ہاؤس کی تقریب میں بھی مدعو کر لیا گیا اور وہ اگلے ماہ وہاں جائے گا، احمد محمد جیسا کہ اُس کے نام سے ظاہر ہے مسلمان ہے، وہ جس سکول میں پڑھتا ہے وہ چرچ سے متعلق ہے، اس 14سالہ بچے نے اپنے ذہن سے بعض ناکارہ چیزوں (بریف کیس) کے استعمال سے ایک کثیر المقاصد گھڑی بنا لی۔ ایک روز وہ یہ عجوبہ گھڑی باندھ کر سکول آ گیا، تو پادری نے پولیس سے شکائت کر دی۔ انہوں نے گھڑی کو بم بنا دیا اور پولیس نے بھی آتے ہی اسے ہتھکڑی لگائی اور تھانے لے جا کر بند کر دیا اور گھڑی قبضہ میں لے لی گئی جسے بم قرار دیا جا رہا تھا۔بہرحال پھر وہی ہوا ،جو مہذب ملکوں کا خاصہ ہے۔ سکول کی انتظامیہ اور احمد محمد کے والدین نے بھاگ دوڑ کی جلد ہی اس کے معائنہ سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا کہ بم ہے، چنانچہ بچے کو رہا کرنا پڑا اور اس کے بعد اس کی گھڑی اور اس کے حوالے سے اسے جو شہرت ملی وہ لاجواب ہے۔ اب اس بچے کی تعریفوں کے پُل باندھے جا رہے ہیں اور اس کو اساتذہ سمیت عزت دی جا رہی ہے، حتیٰ کہ ناسا سے بھی دعوت موصول ہو چکی۔ میڈیا نے بھی حق ادا کیا ہے۔مہذب اور ترقی پذیر ممالک میں جو فرق ہے وہ یہی ہے اگر احمد محمد کو ہمارے ملک میں اس شبے میں پکڑا جاتا، تو گھڑی بم تو رہا ایک طرف اس سے توپ بھی برآمدہو سکتی تھی۔ ہمارے تفتیشی اور تحقیقی اداروں کو بھی ترقی یافتہ ممالک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور ہماری پولیس کے تربیتی کورس میں یہ امر شامل ہونا چاہئے کہ ’’جب تک جرم ثابت نہ ہو، جس پر الزام ہو وہ مجرم نہیں ملزم ہوتا ہے‘‘ اور اس کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔