کسان پیکیج، بلدیاتی الیکشن اور سروے
گزشتہ دِنوں جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں وزیراعظم محمد نوازشریف نے کسان کنونشن میں 341 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا۔ زراعت کے فروغ اور کاشتکاروں کی فلاح کے لئے اربوں روپے کی مالیت کا یہ پیکیج مُلک کی تاریخ کا سب سے بڑا ’’زرعی پیکیج ‘‘ ہے،جس کے ذریعے پیداواری لاگت میں کمی ، کاشتکاروں کے نقصان کا ازالہ، زرعی قرضوں میں اضافہ اور ان کی آسان فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ کنونشن سینٹر ملک بھر سے آئے کسانوں سے بھرا ہوا تھا۔ وزیراعظم نے اُس موقع پر ایک آدھ ’’سیاسی بات‘‘ بھی کی مثلاً یہ کہ ’’کچھ لوگ مجھے ہٹا کر خود آنا چاہتے ہیں‘‘۔ (ہمارے خیال میں ان کا اشارہ عمران خاں کی طرف تھا)۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر بھی بڑے اعتماد کے ساتھ بات کی اور کہا کہ ہماری حکومت کا دوسری حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو واضح تبدیلی نظر آئے گی، ملک کے معاشی حالات بھی بہتری کی طرف جارہے ہیں جسے عالمی مالیاتی اِدارے بھی تسلیم کر رہے ہیں، واشنگٹن پوسٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اقتصادی طور پر مستحکم ہوتا جارہا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہماری حکومت بڑے منصوبے بناتی اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ انہوں نے یہاں ڈیمز، موٹرویز، صنعتی ترقی، ایٹمی دھماکوں اور دفاع کے شعبے میں اپنی حکومت کے کارناموں کا ذکر کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد نوازشریف جب بھی اقتدار میں آئے، انہوں نے گورننس اور ڈلیوری پر خصوصی توجہ دی، 1990ء کی ان کی حکومت ہو، جب اکنامک ریفارمز آئیں، ملک میں انٹر نیٹ کے لئے فائبر کیبل بچھائی گئی، موٹر ویز کے منصوبے شروع کئے گئے یا پھر 1997کی حکومت، جب ایٹمی دھماکے ہوئے اور پاکستان ایک ناقابلِ تسخیر مُلک بنا۔ موٹر ویز کے منصوبوں کی تکمیل ہوئی اور جنوبی ایشیا کی بہترین موٹر وے اسلام آباد، لاہور تکمیل ہوئی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد، ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی کارکردگی دیگر تینوں صوبائی حکومتوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) پھر اقتدار میں آئی تو اُسی جذبے سے کام شروع کیا۔ بہادر فوج کے ساتھ مل کر ضربِ عضب شروع کیا جو کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ بجلی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کئے جو 2011ء تک مکمل ہوجائیں گے۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی پر عوام کو ریلیف دیا۔ بجلی 2.13پیسے فی یونٹ سستی ہوئی۔ پاک، چائنہ اکنامک کاریڈور کا آغاز ہوا۔ آج پاکستان کے سرکاری اِدارے بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ اِدھر عمران خان کی تحریکِ انصاف کے صوبے خیبر پختونخوا میں ڈیمز کے لئے مختص رقوم کو بینک انویسٹمنٹ یا سٹاک مارکیٹ میں لگائے جانے کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے کسان پیکیج کا اعلان نہایت بروقت ہے، کیونکہ اپوزیشن جماعتیں کسانوں کے مسائل پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کا پروگرام بنارہی تھی۔
341ارب کا زرعی پیکیج دُور رس نتائج کا حامل ہو گا، جس سے کسان طبقے میں پھیلتا ہوا اضطراب یقیناًدور ہو گا کہ یہ پیکیج چھوٹے کسانوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ الیکشن کمیشن نے بھی کسان پیکیج کو ’’کلیئر‘‘کردیا ہے کہ یہ محض سندھ یا پنجاب کے لئے نہیں (جہاں بلدیاتی انتخاب ہونے جا رہے ہیں)،بلکہ پورے پاکستان کے لئے ہے چنانچہ اسے پنجاب اور سندھ میں ’’پری پول رگنگ ‘‘قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک اہم واقعہ لاہور کی یونین کونسل 107 میں چیئرمین شپ کے لئے خواجہ احمد حسان کا بلامقابلہ انتخاب ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے اُمیدوار محمد نواز نے کاغذاتِ نامزدگی ہی واپس نہیں لئے، بلکہ مسلم لیگ(ن)میں شمولیت کا اعلان بھی کردیا اور ظاہر ہے یہ بات پی ٹی آئی کے لئے نہایت تشویش کا باعث تھی، جو غلطیاں پی ٹی آئی نے 2013ء کے عام انتخابات میں کیں، وہی بلدیاتی انتخابات میں کر رہی ہے۔ یونین کونسل 107میں پی ٹی آئی نے کوئی متبادل اُمیدوار ہی نہیں دیا تھا۔ یہ یونین کونسل پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی شفقت محمود کے حلقے میں آتی ہے لیکن ان کو بھی اس بات کا ادراک نہیں تھا۔ اگر پی ٹی آئی کے حالات ایسے ہی رہے تو بلدیاتی انتخابات میں بھی اس کا حشر 2013ء کے عام انتخابات سے مختلف نہیں ہوگا۔ ادھر لاہور اور لودھراں میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں کا ضمنی انتخاب دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے دو معروف اِداروں کی سروے رپورٹس سامنے آئی ہیں۔پلَس کنسلٹنٹ اور گیلپ پاکستان نے NA-122 لاہور اور NA-156 لودھراں کے ساتھ NA-125 لاہور کا بھی سروے کیا جس میں ہر حلقے کے 800لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ ضمنی انتخاب میں کس کو ووٹ دیں گے؟
’’گیلپ‘‘ کے مطابق NA-122 میں، جہاں 2013ء میں سردار ایاز نے عمران کو شکست دی تھی، 51فیصد عوام نے مسلم لیگ نون جبکہ 36فیصد نے پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ دیا۔ پلَس کنسلٹنٹ کے مطابق یہاں 57فیصد ووٹرز نے مسلم لیگ(ن)،جبکہ 36فیصد نے پی ٹی آئی کے حق میں رائے دی۔ این اے 125، خواجہ سعد رفیق کا حلقہ ہے اگرچہ یہاں ضمنی الیکشن نہیں ہورہا، تاہم سروے اِداروں نے اسے بھی شامل کیا اس نشست پر 2013ء میں خواجہ سعد نے پی ٹی آئی کے حامد خان کو شکست دی تھی۔ گیلپ پاکستان کے مطابق NA125 میں 56فیصد عوام نے مسلم لیگ(ن) ،جبکہ صرف30فیصد عوام نے پی ٹی آئی کے حق میں رائے دی۔ چند ماہ قبل ہونے والے کینٹ بورڈز کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ(ن) یہاں 20میں سے 15نشستیں جیتی تھیں۔ پلَس کنسلٹنٹ کے مطابق اس حلقے میں 57فیصد افراد مسلم لیگ(ن) اور 34فیصد پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ سروے کے مطابق لودھراں کے NA-154 میں جہاں صدیق بلوچ نے، جو آزاد حیثیت سے جیت کر مسلم لیگ(ن)میں شامل ہوئے تھے، جہانگیر ترین کو شکست دی تھی۔ گیلپ کے مطابق یہاں مسلم لیگ(ن)کے لئے 36فیصد عوام نے رائے دی، جبکہ 42فیصد نے پی ٹی آئی کے لئے اور پلَس کنسلٹنٹ کے مطابق 42فیصد ووٹرز نے ن لیگ اور 42فیصد نے ہی پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 11اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں(جو NA-122اورNA-154 میں ہونے ہیں) کیا نتائج نکلتے ہیں؟