لاہور میں فٹ پاتھوں پر سونے والے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
شاہد ملک ہمارے اخبار کے سنیئر کالم نگار ہیں، ان سے ہماری ملاقات تو کم کم ہوتی ہے، مگر بات چیت اکثر ہو جاتی ہے، ویسے تو ہم نے انہیں کبھی بھلایا اور نہ کبھی یاد کیا، کیونکہ یاد اسے کیا جاتا ہے جسے پہلے بھلایا ہو،یابھلایا جا سکے، لیکن آج ان کی یاد ایک حادثے کے حوالے سے آئی ہے، جو چند ہفتے پہلے ان پر گزر گیا، وہ نماز فجر کے بعد شادمان میں اپنے دوست ڈاکٹر طاہر کے ساتھ ایک سڑک پر خراماں خراماں ٹہل رہے تھے کہ پولیس کی ایک گاڑی کی زد میں آ کر اتنے زخمی ہو گئے کہ کچھ ہوش نہ رہا، ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھے، اور اس لحاظ سے خوش قسمت کہ بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے نہ صرف ان کی صحت جلد بحال ہو گئی بلکہ چند روزہ تکلیف سہنے کے سوا کسی بڑے خطرے سے بھی بچ گئے، اور اب معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں، طبیعت شگفتہ ہے اور تحریر شگفتہ تر بلکہ شگفتہ ترین، وہ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ٹھہرے کہ انہیں جس گاڑی نے ٹکر ماری اسی میں انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، ورنہ آدمی یہ تصور کر کے ہی پریشان ہو جاتا ہے کہ اگر ڈرائیور کو اس وقت فرار ہونے کی سوجھتی تو معاملے کی شکل و صورت کیا ہوتی،
شاہد ملک کی یاد آج ’’روز نامہ پاکستان‘‘ میں ایک خبر پڑھ کر آئی بظاہر جس کی ان کے حادثے سے کوئی مماثلت بھی نہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ بھائی گیٹ فٹ ہاتھ پر سوئے ہوئے بے گھر شہری کو بے قابو کار نے کچل ڈالا 65 سالہ شخص تو موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا، باقی ساری کارروائی روٹین ہے جو اس طرح کی خبروں میں بتائی جاتی ہے، یہ خبر پڑھ کر فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے لوگوں کی حسرت ناک زندگی کا خیال آتا ہے جو بوجوہ بے گھری کے عذاب سے دو چارہیں، اگرچہ ہندوستان کے کاسمو پولٹین شہر ممبئی میں جہاں دولت اور امارت کا کوئی شمار و قطار نہیں اور جہاں پورے ہندوستان کا حسن بھی کھچا چلا آتا ہے، ہزاروں نہیں لاکھوں گھرانے فٹ پاتھوں پر زندگیاں گزارتے ہیں، یہ لوگ اپنابچپن، جوانی اور ادھیڑ عمری انہی سڑکوں پر بتا دیتے ہیں لیکن ان کی زندگیاں نہیں بدلتیں، ان سطور کے راقم کو بنفس نفیس ان گناہ گار آنکھوں کے ساتھ ان لوگوں کی ذلت آمیز زندگی کے مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، اور سچی بات ہے آدمی ناک پر رومال رکھے بغیر ان فٹ پاتھوں سے نہیں گزر سکتا جہاں یہ لوگ رہتے ،کھاتے پیتے اور معمول کی زندگی گزارتے ہیں،ویسے جو لوگ ہر وقت پاکستان سے شاکی نظر آتے ہیں انہیں ممبئی کے یہ فٹ پاتھ دکھا دیئے جائیں تو شاید ان کے خیالات بدل جائیں اس لحاظ سے تو لاہور ، اور دوسرے شہروں میں فٹ پاتھوں پر سونے والوں کی تعداد نہ ہونے برابر ہے لیکن کچھ عرصے سے آپ کو رات کے وقت بہت سے علاقوں میں وہ مزدور سوئے ہوئے مل جائیں گے جنہوں نے مزدوری کے لئے دیہی علاقوں سے لاہور کا رخ کیا، ان لوگوں کو مزدوری کبھی مل جاتی ہے اور کبھی نہیں، لیکن پیٹ بھرنے کے لئے ان لوگوں کو داتا دربار یاایسے ہی دوسرے مقامات سے کھانا ضرور مل جاتا ہے۔ بعض اہل خیر دوسرے مقامات پر بھی بھوکوں کو کھانا کھلاتے دیکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ 65 سالہ شخص کون تھا جسے نا معلوم کا ر سوار کچل کر چلے گئے، پولیس کا خیال ہے کہ ملزم جلد گرفتار ہو جائیں گے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ مرنے والا رزق خاک ہو جائے، کوئی اس مقدمے کی پیروی کرنے والا نہ ہو، کیا معلوم کہ وہ اپنے جن لواحقین کو اس امید پر گھر چھوڑ آیاتھا کہ وہ انہیں کچھ کما کر بھیجے گا وہ اس قابل بھی ہیں یا نہیں کہ لاہور آ کر اس کی نعش بھی وصول کر سکیں کیا معلوم کوئی ملزم پکڑا بھی جائے یا نہیں، کیا معلوم کہ ملزم پکڑ بھی لیا جائے تو مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے کوئی سامنے آ سکے یا نہیں، اور اگر آئے تو اس کے پاس عدالتوں میں پیشیوں پر پہنچنے کے لئے بسوں وغیرہ کا کرایہ بھی ہو یا نہیں۔وکیل کر کے مقدمہ لڑنا تو اس صورت میں محض واہمہ ہو گا۔
جو لوگ اس طرح فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے لوگوں کو کچل کر نکل جاتے ہیں، ان کے متعلق شبہ ہوتا ہے کہ وہ بوجوہ ہوش و حواس میں نہیں ہوتے یا تو انہوں نے کوئی نہ کوئی نشہ کیا ہوتا ہے یا کسی نہ کسی وجہ سے رَت جگے کا شکار ہوتے ہیں، جو لوگ فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں ان کی مزدوری اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اگر سونے کا کوئی ٹھکانہ تلاش کریں اور اس کی ادائیگی کریں تو کھانے پینے سے رہ جائیں اور اگر یہ دونوں ضرورتیں پوری کریں تو گاؤں میں جو لوگ ان کے پیسوں کی راہ دیکھ رہے ہیں ان کی آنکھیں دیکھتے دیکھتے پتھرا جائیں۔مغل بادشاہوں اور شیر شاہ سوری نے اپنے اپنے زمانوں میں مسافروں کے قیام کے لئے سرائیں تعمیر کرائی تھیں جہاں مسافر چند دن کے لئے رک جاتے تھے۔ پھر زمانہ بدلا سرایوں کی جگہ ہوٹلوں نے لے لی، ہوٹل بھی بعد میں فور سٹار ہو گئے، لیکن یہ ساری سہولتیں ایسے لوگوں کے لئے اجنبی ہیں جو فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے پائے جاتے ہیں، کیا آج کے دور کی حکومتیں ان کے لئے سرائے قسم کی کوئی سہولت مہیا نہیں کر سکتیں؟ اور کیا ان لوگوں کے لئے ان کے دیہات کے قریبی شہروں میں کسی روزگار کا بندوبست نہیں ہو سکتا، ابھی عید قربان کے دنوں میں آپ ایسی خبریں بھی پڑھیں گے کہ عارضی بکر منڈیوں میں نو سربازوں نے بیوپاریوں کو لوٹ لیا، یا کوئی بیوپاری رات کے اندھیرے میں قتل ہو گیا، اورنا معلوم لوگ اس کی آمدنی لوٹ لے گئے خود بیوپاری بھی اپنے جانوروں کو مصنوعی دانت لگا کر فروخت کرتے ہیں کیونکہ جانوروں کی عمروں کا تعین دانتوں کی تعداد سے ہوتا ہے اور قربانی کے لئے وہ جانور جائز نہیں ہوتا جس کی عمر ایک سال سے کم ہو، اس لئے جہاں بیوپاری دھوکا کرتے ہیں وہاں وہ خود بھی دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں دھوکے کی اس منڈی میں انسانی جان کی قیمت نہیں رہ گئی۔ جہاں گھروں میں سوئے ہوئے لوگ محفوظ نہ ہوں وہا ں فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے لوگوں کی زندگی کی ضمانت تو کوئی نہیں دے سکتا؟