کینیڈی کا احتجاجی کیمپ

کینیڈی کا احتجاجی کیمپ
 کینیڈی کا احتجاجی کیمپ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بچپن میں Camp Candy کی کارٹون سیریز بڑی دلچسپی سے دیکھا کرتی تھی۔ اس میں Candy ایک مرکزی کردار تھا جو دوسرے کرداروں کو مختلف قسم کے کیمپ لگانے کی عملی تربیت دیا کرتا تھا۔ آج کل پاکستان کو ایک بار پھر احتجاجی سیاست کا سامنا ہے۔ سیاسی منظر نامہ مخالفین کے خلاف الزامات، مطالبات اور دھمکیوں سے دھندلا گیا ہے۔ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید حکومت مخالف کیمپ سے حملہ آور ہیں۔ دوسرے کیمپ میں حکومتی وزراء جوابی کارروائی کر رہے ہیں۔ الزامات کی اس جنگ میں سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہو رہا ہے، وہ ہے عام آدمی، اِن ریلیوں اور جلسوں کی وجہ سے اس کا کاروبار تباہ ہو رہا ہے اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے،لیکن مہذب معاشروں میں ہر کام ایک قاعدے کے مطابق کیا جاتا ہے، اگر کسی کو اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کرنا لازم ہے تو اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔ احتجاج کے لئے ایک مقام کو مخصوص کر لینا چاہئے اور اس مقام کا انتخاب اس امر کو مدِ نظر رکھ کرکر نا چاہئے کہ شہری زندگی متاثر نہ ہو۔اِس کے علاوہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بھی مہذب قوموں کا شیوہ نہیں۔


ایک کینیڈین شہری ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے جمہوری وزیراعظم کے خلاف غداری کا الزام لگا رہا ہے۔ یہ وہ کینیڈین ہے جو موقع دیکھ کر اور حالات کا جائزہ لیتے ہو ئے پاکستان میں وارد ہوتا ہے اور جو مُنہ میں آئے برملا کہہ کرسستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو پاکستانی عوام نے منتخب کیا ہے۔ انہیں عوامی مینڈیٹ حاصل ہے۔اس دورِ حکومت میں معاشی اشاریوں میں مثبت پیش رفت کی گواہی بین الاقومی میڈیا اورمعاشی ریٹنگ کے ادارے دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت کو بھی اِسی دور میں خاصی حد تک نیست ونابود کر دیا گیا ہے۔ اِسی دور میں کراچی کا امن بحا ل ہو رہا ہے۔ توانائی کا بحران حل ہونے کو ہے۔ گزشتہ روز امریکہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اِس بات کا اعتراف کیا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک بین الاقوامی جریدے ’’بلوم برگ‘‘ نے پاکستانی سٹاک ایکسچینج کو ریکارڈ تیزی کی بنا پر ایشیا کی نمبر ون سٹاک مارکیٹ کا درجہ دیا اور پاکستانی معیشت میں مثبت پیش رفت کی بنا پر اِسے ایشیائی ٹائیگر کا خطاب دیا۔ اِسی طرح پاکستان کو ایک مرتبہ پھر اُبھرتی ہوئی معیشت کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔


اِسی دور حکومت میں تاریخ ساز پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ سفارتی سطح پر بھی مثبت پیش رفت رونما ہوئی ہے۔ بھارت نے این ایس جی میں شمولیت کے لئے سر توڑ کاوشیں کیں، لیکن پاکستان کی موثر سفارتکاری کے نتیجے میں بھارت اپنے عزائم کی تکمیل میں ناکام رہا۔ اس کے علاوہ مُلک میں جاری توانائی کے منصوبے، جن میں قائداعظم سولر پاور پروجیکٹ میں 1000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے 1230میگا واٹ حویلی بہادر شاہ میں گیس پاور پراجیکٹ اور ساہیوال کول پراجیکٹ1320mwجیسے منصوبے زیر تکمیل ہیں، جن کے مکمل ہونے سے مُلک کے اندھیرے دور ہونے کا قوی امکان ہے۔ کیا ایک غدار کسی مُلک کی حفاظت کے لئے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہو سکتا ہے؟ کیا ایک غدار مُلک کے لئے سفارتی سطح پر اس مُلک کی نیک نامی کے لئے کاوشیں کر سکتا ہے؟ کیا ایک غدار ملکی معیشت کو بہتری پر گامزن کر سکتا ہے؟ کیا ایک غدار مُلک میں جاری توانائی کے بحران کے حل کے لئے منصوبوں کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔۔۔ان تمام سوالات کا جواب ہے ’’نہیں‘‘ ۔پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کو اس طرح پامال کرنے کا اختیار کسی بیرون مُلک مقیم شہری کو حاصل نہیں۔


پاکستان کے عوام نے کروڑوں ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کو منصبِ اقتدار پر فائز کیا ہے، کیا کروڑوں کی تعداد میں عوام کا فیصلہ غلط ہے اور صرف مٹھی بھر افراد کی شعلہ بیانی درست ہے؟ سیاست دانوں کے لئے جذبا تیت کی بجائے سیاسی شعور ناگزیر ہے۔ اس وقت ہمارا مُلک تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے، جس میں اِسے خارجی و داخلی بے شمار چیلنج درپیش ہیں۔ یہ چیلنج اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم باہمی اختلافات کو بے جا طول نہ دیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ دشمن ہمیں ہر انداز میں کمزور کرنے کے در پے ہے۔ کہیں وہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہے تو کہیں کراچی بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔نہ صرف اندرونی،بلکہ خارجی حملوں سے بھی یہ دشمن دریغ نہیں کر رہا ۔’’را‘‘ کے ایجنٹ افغانستان اور ایران میں اپنی پاکستان دشمن کارروائیوں میں مصروف ہیں۔بین الاقوامی سیاست میں ہمیں تنہا کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کی خواہش میں ہمارا ازلی دشمن کو ئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ہے۔ اس تناظر میں آپس میں نفاق حب الوطنی کے تقاضوں کے عین منافی ہیں۔ حب الوطنی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں ذاتی مفادات پر ملی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے۔ اگر ہمیں واقعی اپنے مُلک سے پیار ہے تو ہمیں اس کا عملی ثبوت باہم اتفاق سے دینا چاہئے اور دہشت گردوں سمیت دیگر تمام دشمنان مُلک کو مُنہ توڑ جواب دینا چاہئے۔

مزید :

کالم -