’’جشن مارجن‘‘ منایا جا سکتا ہے

’’جشن مارجن‘‘ منایا جا سکتا ہے
 ’’جشن مارجن‘‘ منایا جا سکتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن کے نتائج فتح یا شکست کے اصول کے تابع ہوتے ہیں، مارجن کی ’’فضیلت‘‘ کا بیانیہ دوسرے کی فتح میں سے اپنی فتح کا جواز تلاش کرنا اور درحقیقت دوسرے کی فتح کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہوتا ہے سامنے کی بات یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز بستر علالت پر ہونے کے باوجود کامیاب ہو گئی ہیں۔ حلقے سے ان کی غیر موجودگی اور بیماری کی خبروں سے ان کے ووٹروں پر منفی اثر پڑ سکتا تھا مثلاً ووٹر یہ سوچ سکتے تھے کہ ایک بیمار خاتون کا کیا بھروسہ کہ وہ واپس آئیں یا نہ آئیں لہٰذا ایسے امیدوار کو کامیاب کرانے سے ان کے مسائل کے حل کیلئے کون آگے بڑھے گا۔ مگر حلقہ 120کے ووٹروں نے اپنی سوچ کو مثبت رکھا اور نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کیا مجھے ذاتی طور پر ان ووٹروں کے ووٹ نہ ڈالنے کا افسوس ہے جو کسی بھی وجہ سے بروقت پولنگ اسٹیشن کے اندر نہ پہنچ سکے اور ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رہے یہ ووٹر ظاہر ہے صرف مسلم لیگ ن کے نہیں تھے ان میں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی ہوں گے، اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا مگر تحریک انصاف نے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ حالانکہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ان ووٹروں کے مطالبے کو اہمیت دینی چاہئے تھی۔


کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف خاندان کے درمیان اختلاف بڑھ چکا ہے اور حمزہ شہباز شریف کے بعد شہباز شریف نے بھی کلثوم نواز کے لئے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے لندن روانگی کو ضروری سمجھا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ نے اپنی نگرانی میں دھاندلی کرائی ہے اب دونوں باتوں میں سے سچائی کس بات میں سے تلاش کی جائے؟ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف نے حلقہ 120کے ضمنی الیکشن میں بہت زبردست منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کی کمان مریم نواز کے ہاتھ میں تھما کر بہت سے سیاسی فائدے اٹھائے ہیں پہلا فائدہ یہ اٹھایا کہ انہوں نے مریم نواز کوحلقے کے ضمنی الیکشن کے ذریعے قومی سطح پر نمایاں کیا ہے اور اس الیکشن کو عمران خان بمقابلہ نواز شریف کے بجائے مریم نواز بمقابلہ عمران کے رنگ میں بدل دیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ مقابلہ مریم نواز اور عمران خان کے درمیان تھا جو مریم نواز نے جیت لیا ہے، مریم نواز نے اپنے انتخابی جلسوں میں بہت عمدگی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے موقف کو آگے بڑھایا انہوں نے اپنے کسی مخالف کے خلاف سطحی زبان استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف نواز شریف کی نا اہلی کے معاملے کو اُٹھایا البتہ ایک لفظ ’’مہرہ‘‘ استعمال کیا جو ظاہر ہے انہوں نے عمران خا ن کے لئے استعمال نہیں کیا ہے یہ میرا خیال ہے ممکن ہے عمران خان کا خیال ہو کہ مریم نواز نے انہیں ’’مہرے‘‘ کا خطاب دیا ہے۔


مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو لندن بلا کر دراصل ’’دھاندلی ‘‘ کے الزامات کی شدت میں کمی کی ہے۔ وہ اگر ہوتے تو ابھی تک دھاندلی کے الزامات کی شدت سنبھالے نہ سنبھلتی،مگر نواز شریف نے بھی الیکشن میں دھاندلی اور اغوا کے الزامات بھی لگائے ہیں اغوا کے حوالے سے تو وہ خود وضاحت کر سکتے ہیں مگر اس طرح کے واقعات ہر ایک زبان پر تھے کہ جب کوئی ووٹر مسلم لیگ ن کے نشان کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہوتا تو اسے بہت کڑے حالات کا سامنا کرنا پڑتا اور پھر کوشش کی جاتی کہ اسے جلدی فارغ نہ کیا جائے، بعض ووٹروں کو تو سارا دن آپ کا ووٹ یہاں نہیں وہاں ہے، کے چکر میں الجھایا جاتا رہا۔


میرا ایک دوست جو ’’جدی پشتی مزنگیا‘‘ ہے، اسے خاندان سمیت بند روڈ کے کسی پولنگ سٹیشن کا راستہ دکھایا گیا وہ وہاں پہنچا تو اسے مزنگ کا بتایا گیا اور پھر تقریباً پانچ گھنٹے بعد دوبارہ مزنگ آ کر اس نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔۔۔ اس طرح کے واقعات بہت عام سنائی دیئے اور پھر کچھ پر اسرار قسم کی مخلوق کے ’’سائے‘‘ بھی ووٹروں کے اردگرد سایہ کئے نظر آئے یہ سب کچھ واضح نظر آ رہا تھا مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت مطمئن نظر آئی اور انہیں پورا یقین تھا کہ کلثوم نواز کی جیت یقینی ہے البتہ یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا کہ کچھ ’’پر اسرار‘‘ ہاتھوں کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ (ن) کم مارجن سے جیتے تاکہ بعد میں مارجن کم ہے کے ذریعے ایک جماعت جشن مارجن منا سکے سو اگر تحریک انصاف کے لیڈر چاہیں تو وہ جشن مارجن منا سکتے ہیں مگر اس سے پہلے انہیں تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے خلاف کارروائی ضرور کرنی چاہئے جنہوں نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو اکیلا چھوڑتے ہوئے خود کو الیکشن سے دور رکھا۔۔۔ نیوز چینلز کی سکرینوں پر چہرے ضرور دکھائے مگر دیگر انتظامات میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔۔۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے الیکشن میں بہت محنت کی، انہوں نے لوگوں کے ساتھ رابطے کئے گلی گلی ووٹ مانگے اور حلقے میں پیدل سفر کیا۔۔۔ ان کی اس محنت کے بعد ہی تحریک انصاف مقابلے کی پوزیشن میں آئی۔


ان حالات میں تحریک انصاف اگر انصاف سے کام لے تو اسے پنجاب کی قیادت سونپ دے کم از کم یہ خاتون دیگر عہدیداروں سے زیادہ متحرک نظر آئی ہے۔ پی ٹی آئی لاہور کے ضمنی الیکشن کے لئے چودھری سرور کے الیکشن آئیڈیاز پر اپنی الیکشن مہم چلاتی رہی، چودھری صاحب نے پوری الیکشن مہم ’’لندن پلان‘‘ کے تحت چلائی مگر انہیں کسی نے یہ نہیں سمجھایا کہ پاکستان میں پولنگ والے دن ’’ولایتی‘‘ طریقہ ناکام اور ’’دیسی طریقہ‘‘ کامیاب ہوتا ہے یعنی لوگوں کو نہ صرف گھروں سے نکالنا پڑتا ہے بلکہ انہیں پولنگ سٹیشن پر بھی لے جانا پڑتا ہے اور سب سے پہلے ناشتہ بھی کرانا پڑتا ہے اور یہ سب پاکستان کی سیاست کے روایتی انداز ہیں۔ جو نبھانے پڑتے ہیں اور جو امیدوار اپنے ووٹروں کے ساتھ روایتی تعلقات نبھاتا ہے وہی ووٹروں کے دلوں کو بھاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حلقہ 120 کے ووٹروں نے اپنی روایتی وابستگی اور دلچسپی برقرار رکھی البتہ اگر چودھری سرور کی جماعت مارجن کے نام پر جشن منانا چاہتی ہے تو یہ جشن مارجن انہیں 2018ء کے الیکشن میں بھی منانے پڑیں گے۔

مزید :

کالم -