اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا معاملہ

اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا معاملہ
 اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا معاملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ قریب ہے اور ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک بحث چل پڑی ہے کہ اس عہدے کے سربراہ کی تقرری کس طرح کی جائے۔ موجودہ چیئرمین قمرالزمان چودھری کی تقرری تو قومی اسمبلی کے قائد ایوان یعنی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان مشاورت کے بعد عمل میں آئی تھی۔ بعد میں دونوں ہی حضرات نے نیب کی کارکردگی پر انگلیاں بھی اٹھائی تھیں۔ اگر حکومت اور حزب اختلاف آپس میں دوستانہ ماحول رکھیں تو کسی کے پاس شکایت کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں اتفاق ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی طویل عرصے سے حکمرانی کر رہی ہیں ۔ ان کی حکمرانی کے مختلف ادوار کا ایک نقصان دہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اعلی سرکاری افسران کی بڑی کھیپ میں ان کی پسند اور نا پسند شامل ہو گئی ہے۔ اکثر اہم یا غیر اہم محکموں کے سربراہ ان ہی پارٹیوں کی پسند کے سبب عہدے حاصل کر لیتے ہیں ۔ پی آئی اے کی مثال ہی لے لیں، اس کی ناکامیوں اور خسارے کی بڑی وجہ حکمرانوں کے پسندیدہ افراد کی تقرری ہے۔ اہلیت اور قابلیت کو دخل ہوتا تو دنیا کی ایک بڑی ایئر لائن کمپنی کا وہ حشر نہیں ہوتا جو پی آئی اے کا ہوا ہے۔ پی آئی اے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے کئی ممالک میں ان کی ایئر لائن کھڑی کی تھیں ۔ دنیا بھر میں متعلقہ شعبوں میں ان شعبوں سے متعلق علم لوگوں کی تقرری کی وجہ بنتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا رہا ہے۔


بھٹو مرحوم نے اپنے وقت کے بڑے صنعتکار رفیق سہگل کو پی آئی اے کا سربراہ اس وجہ سے مقرر کر دیا تھا کہ رفیق سہگل سن ستر کے ا نتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں ناکام ہو گئے تھے ۔ انہیں جمعیت علماء پاکستان نے نامزد کیا تھا۔ رفیق سہگل حاکم وقت سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے تھے اور حاکم وقت بھی ایک بڑے صنعتکار کو اپنے قریب دیکھنا چاہتے تھے ۔ بہر حال یہ تو اس ملک میں ہوتا ہی رہا ہے۔ ایسے با اثر افراد کی تقرریاں اور پھر ان کی ناکامیوں کے بعد کبھی کوئی نہیں پوچھتا کہ خرابی یا خسارہ کیوں ہوا۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان ملک کا ایک انتہائی اہم ادارہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ لمیٹڈ کمپنیوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ کسی کمپنی کے کچھ شیئر اگر بدنیتی سے ادھر سے ادھر کر دئے جائیں تو کمپنی کی ملکیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی کس طرح ملوث ہوئے اور اپنے عہدے کے تقاضوں کے برعکس کسی کمپنی کی دستاویزات میں کیوں کر تبدیلی کے مرتکب ہوئے۔ نیشنل بنک کے سربراہ سعید احمد کی اہلیت کے تذکرے بھی نواز شریف کیس کی سماعت کے دوران سامنے آچکے ہیں۔


پاکستان میں درجنوں ادارے ایسے ہیں جہاں سربراہوں کی تقرری کا وفاقی سطح پر وزیر اعظم کو مکمل اختیار حاصل ہے اور ان ہی کی صوابدید پر منحصر ہے کہ جسے چاہیں مقرر کردیں۔ صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ کو ا ختیار حاصل ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین یہ اختیار استعمال کرتے ہیں ، خیبر پختون خوا میں عمران خان سے رضا مندی حاصل کی جاتی ہے، پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں نواز شریف یا شہباز شریف یہ اختیار رکھتے ہیں۔ کسی کو علم نہیں ہوتا کہ کسے مقرر کیا جانا ہے۔ فوج میں تقرری کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ کمانڈروں کو علم ہوتا ہے کہ وزارت دفاع کو کن کن جنرلوں کے نام سربرا ہی کے لئے روانہ کئے گئے ہیں۔ وہاں ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی جونیئر کا نام بھیج دیا جائے۔ سینئر افراد کے نام ہی بھیجے جاتے ہیں جو وزارت دفاع وزیر اعظم کو منظوری کے لئے پیش کرتی ہے۔ وزیر اعظم ایک جنرل کا انتخاب کرکے انہیں مقرر کر دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے سربراہ کی تقرری کا فارمولا طے کیا ہوا ہے۔ سینئر جج اپنا نمبر آنے پر خود بخود مقرر ہوجاتے ہیں۔ ملک کے دیگر اداروں میں کوئی اصول ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اپنی پسند اور خواہش کے مطابق سربراہ کی تقرری کرتے ہیں۔ اہل لوگ اکثر مار کھا جاتے ہیں۔ ،نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے تمام ہی ادارے تباہی سے دوچار ہوگئے یا مالی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوگئے۔
اہم ملکی اداروں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین مع اراکین ، پی آئی اے، واپڈا، پریس انفارمیشن افسر، (پی آئی او)، پیمرا چیئرمین اور اتھارٹی کے غیر سرکاری اراکین ، نیپرا، ایف آئی اے، ایئر پورٹ سیکورٹی فورس، سول ایوی ایشن اتھارٹی، ایس ای سی پی، نجکاری کمیشن، پاکستان ٹیلی وژن، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، پاکستان ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز، او جی ڈی سی، اوگرا، پاکستان اسٹیٹ آئل، پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستان ہاکی فیڈریشن، نیشنل بنک آف پاکستان، اسٹیٹ بنک ، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) و سول ایوی ایشن اتھارٹی اور دیگر شامل ہیں ۔ ان تمام اداروں میں وزیر اعظم کے منظور نظر افراد کو ہی تقرری ملتی ہے۔ صوبائی حکومتوں میں بھی جو اہم محکمے ہیں ان میں تقرری وزیر اعلیٰ کی صوابدید پر ملتی ہے جس وجہ سے خوشامدیوں کی چاندی بھی ہو جاتی ہے۔ افسران کی خوشامد پر ایک واقعہ سن لیں۔ پاکستان کے ریٹائرڈ سینئر سفارت کار جمشید مارکر نے اپنے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ’’ محکمہ پراپرٹی کے سیکریٹری وزیر اعظم لیاقت علی خان کے پاس ایک فائل لے کر آئے اور کہا کہ حکومت نے آپ کو ایک پلاٹ الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے آپ مستحق ہیں، اس کی منظوری دے دیں۔ لیاقت علی خان نے اپنے دفتر کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو انہیں مہاجرین کی جھونپڑیاں نظر آئیں، انہوں نے سیکرٹری سے کہا کہ جاؤ ، پہلے ان تمام لوگوں کی بحالی کرو پھر یہ فائل لے کر آنااور وزیر اعظم نے فائل کو دفتر کے فرش پر پھینک دیا ‘‘۔ پاکستان کے کئی وزیر اعظم لیاقت علی خان تو ثابت نہیں ہوئے۔


عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید نے کہا ہے کہ ’ ’ سپریم کورٹ نیب ، پیمرا اور ایس ای سی پی سمیت 8 اداروں کے سربراہ اچھے لوگوں کو لگوا دیں تو اس سے سپریم کورٹ کے ہاتھ بھی مضبوط ہوں گے اور جمہوریت بھی مضبوط ہوگی ‘‘۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کہتے ہیں کہ ’ ’ چیئرمین نیب کا انتخاب سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان مل کر کریں‘‘۔ اگر پاکستان میں اعلیٰ افسران کو خود مختار رکھا جائے اور فیصلے آزادانہ طریقے سے کرنے کا اختیار حاصل ہو، انہیں انتقام کا کوئی خوف نہ ہو تو ملک میں ایک بار پھر بہترین انتظامیہ وجود میں آسکتی ہے۔ کیوں نہیں حکومت اور حزب اختلاف کو ایک بنیادی اصول طے کرنا چاہئے کہ تمام اداروں میں سربراہوں کی تقرری کے لئے قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں اور سینٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف پر مشتمل مستقل کمیٹی قائم کی جائے جو ان تقرریوں پر حتمی فیصلے کی مجاز ہو۔ انفرادی فیصلوں سے کہیں زیادہ اجتماعی فیصلے بہترین ہوتے ہیں

مزید :

کالم -