الیکشن مینجمنٹ

الیکشن مینجمنٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

این اے ایک سو بیس کا الیکشن ہو چکا، ایک نئی تاریخ لکھی جا چکی اور یہ تاریخ الیکشن مینجمنٹ کی بھی ہے، اس سے پہلے نوے کی دہائی میں ہم انجینئر ڈ الیکشن کی اصطلاح سنا کرتے تھے، اس دور میں آئین میں ضیاء الحق کی داخل کی ہوئی اٹھاون ٹو بی کا راج ہوا کرتا تھا، اقتدار کی میوزیکل چئیر تھی یا سی سا کا کھیل تھا، ہمیں پہلے سے علم ہوتا تھا کہ اگر کلہاڑا نوازشریف کی حکومت پر چلا ہے تو اب بے نظیر بھٹو کی باری ہے اور اگر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کیا گیا ہے تو نواز شریف کولایا جا رہا ہے، شائد اس دور کی انجینئرنگ زیادہ پائیدار اور مضبوط تھی کہ نکالے جانے والا اگلے انتخاب میں نہیں آیا کرتا تھا۔
سترہ دسمبر کو ہونے والے انتخابات سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لئے کم از کم ایک تھیسز برابرتحقیقی مواد ضرور رکھتے ہیں ۔ اس الیکشن کی مینجمنٹ کا کام اس وقت ہی شروع ہو گیا تھا جب نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ بھی نہیں آیا تھا ۔اس وقت ایک ملی مسلم لیگ کو میدان میں اتار دیا گیا تھا مگر صرف ایک ملی مسلم لیگ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا تھا لہذااس امر کو یقینی بنایا گیا کہ چوالیس میں سے بیالیس امیدوار ایسے ہوں جو مسلم لیگ نون کو ٹارگٹ کر رہے ہوں ، سائنس یہ تھی کہ اگر ہر امیدوار پانچ سو ووٹروں کو بھی مسلم لیگ نون سے متنفر اور دور کر سکے تو مجموعی طور پر بیس، اکیس ہزار ووٹوں کافرق ڈالا جا سکتا ہے ۔ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ ٹھنڈے کمروں میں کی جانے والی مینجمنٹ عملی میدان میں رہ جاتی ہے مگراس کے باوجود مینجمنٹ کے وجود ، کردار ، ضرورت اور اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں الیکشن مینجمنٹ تین مرحلوں میں تقسیم نظر آئی۔ مسلم لیگ نون کی امیدوار کلثوم نواز شریف اپنی بیماری کی وجہ سے اور میاں محمد نواز شریف ان کی عیادت کی وجہ سے حلقے سے دور تھے، اس موقعے پر حمزہ شہباز شریف بھی بوجوہ موجود نہیں تھے جو ضمنی الیکشن ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں ۔ مریم نواز شریف کو پہلی مرتبہ انتخابی مہم سے نتیجے تک تمام ذمہ داریاں خود ہی سرانجام دینی تھیں مگر مقابلے پر عمران خان اور سراج الحق ڈیوٹی پر موجود تھے۔ خان صاحب نے اس حلقے سے بیس گز دور ایک جلسہ بھی کیا اور ریلی بھی نکالی، سراج الحق صاحب بھی اندرون لاہور رونق لگا گئے۔ جب ووٹنگ کے انتظار میں گھنٹے گنے جا رہے تھے تو اس وقت میاں نواز شریف اور دیگر کی سپریم کورٹ آف پاکستان سے نااہلی اور مقدمات کے خلاف اپیلیں بھی مسترد ہو گئیں اور ووٹر کو ایک خاص مایوس کردینے والا پیغام بھی پہنچا دیا گیا۔میاں نواز شریف عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد سے چالیس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتے تھے ۔ یہ عمومی تاثر تھا کہ کلثوم نواز شریف کو اس حلقے سے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے تو یہاں سائنس کہتی تھی کہ آپ جیت کے مارجن کو کم سے کم کر سکتے ہیں۔مینجمنٹ کی اس سائنس کو سمجھنے کے بعد اب مجھے حیرانی نہیں کہ اصلی اور کھرے لاہوریوں کو ووٹوں کے لئے اتوار یعنی چھٹی کا روز کیوں دیا گیا۔ لاہورئیے اتوار کو بالعموم دس بجے یا اس کے بھی بعد بسترو ں سے اپنے منہ باہر نکالتے ہیں لہذا صبح آٹھ سے بارہ بجے تک کا وقت آسانی سے ضائع ہو سکتا تھا جو کامیابی سے ضائع کروایا گیا، کم پولنگ کے ساتھ ساتھ ناشتوں میں مصروف لاہوریوں کی مختلف چینلوں پر رپورٹیں آن ائیر ہوئیں۔ پولنگ کے عملے نے ہر پولنگ اسٹیشن پرتاخیر کے لئے ایک حربہ یہ استعمال کیا کہ ہر پولنگ بوتھ کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو پولنگ ایجنٹ بٹھانے کی ہدایت کر دی جو اس وقت ممکن ہی نہیں تھا، اس تنازعے نے بھی ایک ، ڈیڑھ گھنٹہ ضائع کر دیا۔اس الیکشن کے لئے سیکورٹی سے کس کو انکا ر ہو سکتا تھا مگر جب آپ سیکورٹی کے لئے تین تہیں بناتے ہیں تو اس میں جہاں تین ووٹر بھگتائے جا سکتے ہیں وہاں صرف ایک ووٹر پولنگ بوتھ تک پہنچتا ہے کیونکہ بار بار اس کا راستہ روکا جاتا ہے اور قطار رک جاتی ہے۔
یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ چالیس کے قریب نامعلوم قسم کے امیدواروں کا فائدہ صرف یہی نہیں تھا کہ وہ ووٹ خراب کریں بلکہ یہ بھی تھا کہ جب ایک کم پڑھا لکھا یا کم تجربہ کار ووٹر اتنی بڑی فہرست کو دیکھے تو بوکھلا جائے اور اپنے امیدوار کا نام اور نشان تلاش کرنے میں وقت ضائع ہو۔ ڈبوں کے بھرے جانے اورنئے آنے کی کہانی الگ ہے مگر ووٹنگ سے پہلے رات گئے مسلم لیگ نون کے ہمدردوں کی چیخ و پکار شروع ہو گئی کہ ان کے مقامی رہنماوں کو اٹھا لیا گیا ہے ۔ یہ کیا اور کیوں تھا اس کی تحقیقات کا حکم وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہوا ہے اور مجھے موجودہ دور میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اس حکومت کے پاس کوئی اپنا وزیر داخلہ بھی ہے۔یہ رپورٹیں بھی پہلی مرتبہ میڈیا کی زینت بنیں کہ جو شخص مسلم لیگ نون کے کیمپ سے شیر کے نشان والی ووٹ کے نمبر کی پرچی لے کے جاتا تھا اسے بتایا جاتا تھا کہ اس کے ووٹ کا اندارج یہاں نہیں ہے۔ ایک کارکن نے تین مرتبہ شیر کی پرچی بنوائی اور تینوں مرتبہ یہی جواب ملا ، چوتھی مرتبہ تحریک ا نصاف کی پرچی بنوائی اور اس پرچی پر اس کا ووٹ پہلی کوشش میں ہی ٹریس ہو گیا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مسلم لیگ نون نے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہونے کے باوجود ایک بے بس اور لاچاراپوزیشن پارٹی کے طور پر الیکشن لڑا اور ایک سپاہی نے صوبائی وزیر بلال یٰسین اور ایک دوسرے سپاہی نے لارڈ مئیر لاہور کا راستہ روک کر اور ان سے جھگڑا کر کے ثابت کر دیا کہ الیکشن کے علاقے میں حکومت کسی اور کی تھی۔ وقت ضائع ہونے اور ووٹروں کے حق رائے دہی استعمال نہ ہونے پر مسلم لیگ نون کی قیادت نے دو بجے دوپہر سے ہی الیکشن کمیشن سے درخواست کرنا شروع کر دی تھی کہ وہ پولنگ کا وقت پانچ بجے سے چھ بجے تک بڑھا دے مگر جہاں الیکشن کمیشن اس مینجمنٹ کو خراب نہیں کرسکتا تھا وہاں تحریک انصاف نے بھی اس کی کھلی ڈلی مخالفت کر دی۔ کسی بھی الیکشن میں ہر پارٹی چاہتی ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ ووٹر پولنگ بوتھ کے اندر پہنچ کر ووٹ کی پرچی ڈبے میں ڈال دیں۔ تحریک انصاف بھی اگر ایک سیاسی جماعت کے طور پر ایکٹ کررہی ہوتی تو وقت میں اضافہ اس کا بھی مطالبہ ہوتا مگر اس کی مخالفت نے واضح کردیا کہ وہ ووٹر کے پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے سے روکنے کی منصوبہ بندی میں حصے دار ہے۔
ایک مینجمنٹ پری پول تھی، دوسری پولنگ کے دوران کی تھی اور تیسری مینجمنٹ پولنگ کے بعد مسلم لیگ نون کی کامیابی والے نتائج کو مشکوک بنانے کے حوالے سے تھی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ہدایات جاری کی گئیں کہ کسی بھی رزلٹ کو چھ بجے سے پہلے اناونس نہ کیا جائے مگر میرے فون پر ایک بیوروکریٹ کی طرف سے بہت سارے اعلانات پہنچ گئے جو میڈیا ہاوسز کو پہنچائے جا رہے تھے۔ صحافت کے طالب علموں کے لئے سترہ ستمبر کی شام چھ بجے سے رات آٹھ بجے تک چینلوں کی سکرینوں کی سٹڈی بھی فائدہ مند رہے گی۔ ٹھیک چھ بجے شام حیرت انگیز طور پر تمام سکرینوں پر وہ نتائج جگمکا رہے تھے جن میں تحریک انصاف کی امیدوار سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ووٹوں سے آگے تھیں مگر لاہور کے ترجمان چینل کی سکرین کچھ اور بتا رہی تھی۔ جناب محسن نقوی نے اپنی انفرادیت اور ساکھ کو برقرار رکھا تھا اوروہاں تمام نتائج پریذائیڈنگ افسران کی طرف سے جاری کئے جانے والے فارم چودہ کی نقل کے ساتھ آ رہے تھے اور ان میں کسی ایک وقت بھی یاسمین راشد نے مجموعی ووٹوں میں بیگم کلثوم نواز کو پیچھے نہیں چھوڑا۔ مجھے کہنے میں عارنہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ریٹنگ اور ساکھ کا حامل میڈیا گروپ بھی یہاں مخصوص مقاصد کے حصول میں استعمال ہو گیا۔ ان تمام میڈیا گروپس نے فارم چودہ والے نتائج کو مسلسل دیکھتے ہوئے دو گھنٹوں کے بعد یوٹرن لینا شروع کیا ۔پہلے رفتہ رفتہ تحریک انصاف کی گھڑی ہوئی لیڈ کو کم کیا اور پھر لاہور کے چینل کے نتائج کو فالو کرنا شروع کر دیا اور یوں مینجمنٹ کا تیسرا مرحلہ بھی اپنے مقاصدصرف دو گھنٹے تک ہی حاصل کر سکا۔ اس دوران پرانا حربہ بھی استعمال ہوا کہ مختلف علاقوں میں کیبل بند کر دی جائے، اس دوران سوشل میڈیا پر رش بڑھ گیا۔
الیکشن آرٹس کے ساتھ ساتھ سائنس کا بھی سبجیکٹ ہے اور اسے بہت اچھی طرح پڑھا ، سمجھا اور لاگو کیا گیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ قدرت کی آرٹس اور سائنس سب سے مختلف اور سب پر حاوی ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی پر تو تبصرہ نہیں کرنا مگرپیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے ووٹوں پر افسوس کا اظہار ضرور کرنا ہے،ووٹروں کی طرف سے ملک گیر سیاسی نظریاتی جماعتوں کی اتنی بے عزتی بھی ٹھیک نہیں ہے۔

مزید :

کالم -