فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 216

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 216
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 216

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زیبا بیگم سے کچھ کہنے کی حاجت ہی نہیں تھی۔ سین کے آغاز میں سچویشن کے مطابق وہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھیں اور اس کے بعد تو وہ خود بھی آتش فشاں بن چکی تھیں۔ اس لئے ان کی ناراضی ہمارے سین کے مطابق تھی۔
پھر بھی شوٹنگ سے پہلے سیٹ پرخاصا کشیدہ ماحول تھا۔ سبھی کو ان دونوں کی باہمی رنجش کا احساس تھا۔ مگر سین بہت اچھّا اور طارق صاحب کی منشا کے مطابق فلمالیا گیا۔ صرف اتنا تھا کہ ہر شاٹ کے بعد دونوں فن کار منہ پھلا کر دو مختلف سمتوں میں جا کر بیٹھ جاتے تھے۔
اب اس سیٹ پر گانے کا وہ حصّہ رہ گیا تھا جو تنہا زیبا پر فلمایا جانا تھا۔ ہم نے زیبا کیلئے شب خوابی کا لباس جاپانی کمونو کے انداز کا تیار کرایا تھا۔ یہ چائنا سلک سے بنایا گیا تھا اور اس پر چینی جاپانی سٹائل کے بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 215 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سین کی فلم بندی ختم ہوئی تو سہ پہر کا وقت ہو چکا تھا۔ گانے کی شوٹنگ رات کو دس گیارہ بجے تک ہونی تھی۔ بیڈ روم کا محدود سیٹ تھا جس پر زیبا کے حصّے کا گانا بہت آسانی سے فلمایا جاسکتا تھا۔
ہم اطمینان سے اپنے دفتر میں بیٹھے چائے سے شغل کر رہے تھے کہ حسن طارق صاحب اندر آئے۔ پریشانی اور الجھن کے تاثرات ان کے چہرے پر صاف نظر آرہے تھے۔
’’آفاقی صاحب۔ زیبا بیگم نے وہ نائٹ سوٹ ناپسند کردیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسرا نائٹ سوٹ ہوگا تو وہ گانا فلم بند کرائیں گی۔‘‘
’’ناپسند کیوں کردیا ہے۔ اتنا اچھّا اور قیمتی لباس ہے‘‘ ہم نے کہا
’’یہ بات آپ خود ہی اپنی ہیروئن کو جا کر سمجھا دیجئے‘‘ وہ یہ کہہ کر ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’وہ ہیں کہاں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’میک اپ روم میں۔‘‘
ہم زیبا سے ملاقات کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔وہ میک اپ میں مصروف تھیں، ہماری شکل دیکھتے ہی بولنا شروع کردیا ’’آفاقی کچھ خدا کا خوف کرو۔‘‘
’’کیوں۔ کیا ہوگیا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’تم نے یہ ڈریس بنوایا ہے۔ اتنا ڈھیلا اور گھٹیا!‘‘ ہم ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’تھوڑی عقل بھی استعمال کر لیا کیجئے۔ بھئی یہ ڈانسنگ ڈریس نہیں ہے ،نائٹ سوٹ ہے۔ اتنا بھی نہیں جانتیں کہ سوتے وقت ڈھیلا ڈھالا لباس ہی پہنا جاتا ہے۔ چُست کپڑے پہن کر کون سوتا ہے؟‘‘ ہم نے فوراً عُذر پیش کردیا۔
’’فلموں کی ہیروئنیں اتنا ڈھیلا لباس پہن کر گانا نہیں گاتیں۔‘‘انہوں نے جوابی حملہ کردیا۔
ہم نے آرام سے بیٹھ کر پائپ جلایا اور ڈریس ماسٹر کو طلب کیا ’’ماسٹر جی۔ وہ ڈریس کہاں ہے؟‘‘
’’ابھی لایا سرجی ‘‘ ماسٹر جی فوراً ڈریس لینے چلے گئے۔
زیبا نے کہا ’’آفاقی۔ میں سیریسلی کہہ رہی ہوں۔ یقین کرو، یہ ڈریس کسی کام کا نہیں ہے۔ اتنی کنجوسی بھی اچھی نہیں ہے۔ کوئی اچھا سا نائٹ ڈریس بنواؤ۔‘‘
’’مگر اب اتنا وقت نہیں ہے۔ اس کے بعد نہ تو آپ کی ڈیٹ ہے اور نہ ہی سٹوڈیو کی بُکنگ مل سکتی ہے۔‘‘
اتنی دیر میں ماسٹر جی بھاگم بھاگ ڈریس لے کر وہیں آگئے۔
’’اس ڈریس میں کیا خرابی ہے؟‘‘ ہم نے اپنے دلائل شروع کئے ’’اتنا قیمتی چائنا سلک کپڑا ہے۔ ہم نے خاص طور پر جاپانی سٹائل کا لباس تیار کرایا ہے۔‘‘
زیباہنسنے لگیں’’خدا کاخوف کرو، یہ لباس ہے؟ اور وہ بھی گانا پکچرائز کرانے کیلئے؟‘‘
ڈریس ماسٹر نے لباس کھول کر مختلف زاویوں سے دکھانا شروع کردیا۔ صرف پہن کر نہیں دکھایااور ہر طرح اپنے اوپر لٹکا کر اس کی نمائش کردی۔
’’بھئی تم چاہے ناراض ہو جاؤ مگر یہ ڈریس پہن کر ہر گز گانا پکچرائز نہیں کراؤں گی‘‘ زیبا نے ہمیں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
ہم نے بہت ٹھنڈے دل سے کام لیا اور اپنا غصہ پائپ کی طرف منتقل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ پھر اپنے ہوش و حواس پر قابو پانے کے بعد ہم نے بہت میٹھے لہجے میں کہا ’’دیکھو یہ تو ہم بتا ہی چکے ہیں کہ ہر صورت میں ہمارے پاس یہ گانا پکچرائز کرنے کیلئے صرف آج ہی کی ڈیٹ ہے۔ اگر یہ آج نہ مکّمل ہوا تو پھر بہت دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ سوچ لیں۔ اگر ہمارا نقصان ہی کرنا ہے تو اور بات ہے۔‘‘
ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بولیں ’’ڈائیلاگ بولنے کی کوشش نہ کرو، پروڈیوسر بنے ہو تو اپنا دل بھی بڑا کرو۔‘‘
’’کیسے دل بڑا کریں؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’ذرا اس کی ترکیب بھی بتائیں؟‘‘
کہنے لگیں ’’نیا ڈریس سلوانے کیلئے وقت نہیں ہے تو کیا ہوا۔ بازار میں دکانوں پر ایک سے ایک بڑھیا نائٹ سوٹ مل جاتا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ یہ واقعہ 1965ء کے ابتدائی ماہ کا ہے۔ اس زمانے میں نہ تو لاہور میں فیشن ایبل ملبوسات کے سٹور تھے اور نہ ہی باہر کے ملبوسات آسانی سے دستیاب ہوسکتے تھے۔ ہم نے کہا ’’جناب یہ نہ بھولئے کہ آج چھٹی کا دن ہے اور لاہور میں جو بھی اس قسم کی دوچار دکانیں ہیں وہ بھی بند ہیں۔‘‘
’’خیراب ایسی بات بھی نہیں ہے‘‘ انہوں نے ہمارا عُذر تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ’’ابھی چلو میرے ساتھ۔ اسی وقت میں تمہیں جتنے چاہو نائٹ سوٹ دلوا دیتی ہوں۔ اطمینان رکھو تم سے پٹرول کا خرچ بھی نہیں لوں گی۔‘‘
ہم فوراً آمادہ ہوگئے ’’چلو۔ ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘وہ جاتی سردیوں کی سہ پہر تھی۔ ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا مگر بہرحال شام ہوگئی تھی۔
زیبا نے ہمیں اپنی کار میں بٹھایا اور سب سے پہلے گلبرگ کا رخ کیا۔ وہاں تمام دکانیں بند تھیں۔ مال روڈ پر گئے۔ انارکلی کا چکر لگایا مگر کوئی دکان کھلی ہوئی نہ ملی۔ ہمیں اچانک خیال آیا کہ لکشمی چوک پرایک ایسا سٹور ہے جو اتوار کے روز بھی کھلا رہتا ہے۔
ہم نے کہا ’’ایک سٹور شاید کھلا ہو۔ مگر وہ لکشمی چوک پر ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوا‘‘ وہ بولیں ’’وہیں چلتے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’مگر وہاں کافی رش ہوتا ہے۔ اتوار کا دن ہے۔ سنیماؤں کے شوز پر بہت لوگ آتے ہیں۔ ویسے بھی وہ فلم والوں کا علاقہ ہے۔ کسی نے پہچان لیا تو مشکل ہو جائے گی۔‘‘
وہ مسکرانے لگئیں ’’اب بہانے نہ بناؤ۔ میں نے برقع جو پہن رکھا ہے۔ کوئی مجھے کیسے پہچان لے گا؟‘‘
بات تو معقول تھی۔ ہم نے فوراً مان لی ’’ٹھیک ہے۔ تو پھر لکشمی چوک کی طرف چلتے ہیں۔‘‘
ٹریفک اس زمانے میں برائے نام ہی ہوتا تھا۔ چند منٹ میں ہم لکشمی چوک پہنچ گئے۔ زیبا نے سٹور کے سامنے اپنی کار روک دی۔ ہم سٹور کے اندر گئے۔ مالک اور سیلز مین بھی ہم کو بہت اچھّی طرح جانتے تھے کیونکہ ہم اکثراس دکان سے ٹائیاں، پرفیومز، تمباکو، رومال وغیرہ خریدا کرتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد ہم نے کہا ’’آپ کے پاس لیڈیز نائٹ سوٹ ہوں گے؟‘‘
انہوں نے کہا ہمارے سامنے چند ڈبے لا کر رکھ دیئے۔ سب ہی سوتی کپڑے سے بنے ہوئے تھے۔
ہم نے کہا ’’بھائی ذرا اچھّی قسم کے ریشمی نائٹ سوٹ دکھاؤ۔‘‘
’’سر ریشمی تو نہیں ہیں۔ اس وقت تو بس یہی ہیں۔‘‘
ہم نے باہر کار کے پاس جا کر زیبا کو مطلع کیا تو وہ بولیں ’’تمہاری تو قسمت ہی بہت اچھی ہے۔ ان کے پاس کوئی ریشمی اور مہنگا نائٹ سوٹ ہی نہیں ہے۔ مگر مجھے دکھا تودو۔‘‘
ہم نے کہا ’’دکان کے اندر چل کر دیکھ لو۔‘‘
’’نہ بابا میں کار سے نہیں اتروں گی۔ ان سے کہنا یہیں لا کر دکھا دیں۔‘‘
ہم دوبارہ دکان میں چلے گئے اور وہ۔۔۔ آٹھ دس ڈبے اٹھا کر لے آئے۔ زیبا نے نقاب سرکا کر نائٹ سوٹ دیکھنے شروع کردیئے۔ اگرچہ وہ برقع پہنے ہوئے تھیں اس کے باوجود ہم چاہتے تھے کہ جتنی جلد ممکن ہو وہاں سے رخصت ہو جائیں۔ ہم مزید ڈبّے لینے کیلئے دکان میں چلے گئے۔ سیلز مین کو ہم اس ڈرسے ساتھ لے کر نہیں آئے کہ کہیں وہ زیبا کو پہچان نہ لے۔ اب جو ہم دوسری بار چند ڈبے لے کر کار میں بیٹھے توہمیں محسوس ہوا کہ کار کے آس پاس لوگ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
ہم نے زیبا سے کہا ’’بھئی جلدی کریں۔ ایسا نہ ہو کہ یہاں مجمع لگ جائے۔‘‘
انہوں نے بھی خطرہ محسوس کرلیاتھا۔ ویسے بھی کوئی نائٹ سوٹ کام کا نہیں تھا۔ ہم نے تمام ڈبے دوبارہ سمیٹے اور دکان میں چلے گئے۔ ایک سیلز مین بھی ڈبے واپس لے جانے کیلئے ہماری مدد کرنے کے خیال سے کار کے پاس پہنچ گیا۔ اتنی دیر میں کار کے گرد لوگوں کا جمگھٹالگ گیاتھا۔ جیسے ہی ہم نے کار میں بیٹھ کر آخری ڈبے سیلز مین کے حوالے کئے، لوگوں کی آوازیں ہمارے کان میں پڑنے لگیں جو سرگوشی میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے ’’زیبا۔زیبا ہے یہ تو۔ شرط لگالو زیبا ہے۔‘‘
خدا جانے انہوں نے یہ راز کیسے پالیاتھا۔
ہم نے گھبرا کر زیبا سے کہا ’’فوراً کار سٹارٹ کرکے بھاگنا چاہئے۔‘‘
زیبا نے کار کو گیئر میں ڈالااور تیزی سے چل پڑیں۔ اب لوگ واقعی انہیں پہچان گئے تھے اور کچھ دور تک کار کے پیچھے بھی بھاگے مگرکار بہت تیزی سے حرکت میں آچکی تھی۔ لکشمی چوک کے علاقے سے باہر نکل کر ہم نے اطمینان کا سانس لیا اور شُکر کیا کہ ابھی سنیماؤں کے شو ختم نہیں ہوئے تھے ورنہ لکشمی چوک پر لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے تل دھرنے کوجگہ نہ رہتی تھی۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 217 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں