بصرہ کے ایک قبرستان میں موجودوہ قبر جہاں سے گدھے کے چلانے کی آوازیں آتی تھیں کیونکہ ۔ ۔ ۔
بصرہ کے ایک قبرستان کے گورکن نے اپنے بوڑھے باپ کو ایک عجیب واقعہ بتایا کہ ابا جان! میں جب بھی ایک قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو مجھے گدھے کے چلانے کی آواز آتی ہے۔ کیا آپ مجھے اس قبر کے وارث کے گھر کا پتہ دے سکتے ہیں تاکہ میں ان کو مطلع کردوں؟باپ نے پتہ دے دیا۔ وہ شخص بتائے گئے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی تو دیکاھ کہ ایک بہت ضعیف خاتون باہر آئیں۔ اس شخص نے بتایا کہ میں جب بھی آپ کے رشتہ دار کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو مجھے اس میں سے گدھے کی آواز آتی ہے، آخر کیا ماجرا ہے؟
روزنامہ امت کے مطابق یہ سن کر وہ خاتون زاروقطار رونے لگیں۔ کچھ دیر کے بعد آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں کہ بیٹا وہ میرے بیٹے کی قبر ہے، جب بھی میں اسے ڈانٹتی تھی تو وہ چھوٹتے ہی کہتا تھا کہ کیا گدھے کی طرح چلاتی رہتی ہے، یہ کہہ کر وہ خاتون پھر زاروقطار رونے لگیں۔ (حوالہ کتاب شرح الصدور)
جنت اور دیدارالہٰی
حضرت رابعہ بصریہؓ کہیں سے گزررہی تھیں، آپؒ نے دیکھا وہاں ایک شخص جنت کا ذکر کررہا ہے، آپ وہاں رک گئیں اور کہا میاں خدا سے ڈرو، تم کب تک بندگان خدا کو خدا کی محبت سے غافل رکھو گے، تم کو چاہیے کہ پہلے انہیں خدا سے محبت کی تعلیم دو اور پھر جنت کا شوق دلاﺅ۔
اس شخص نے حضرت رابعہ بصریہؒ کی یہ باتیں سنیں تو ناک چڑھائی اور غصے سے کہا اے دیوانی! جا اپنا راستہ لے۔ آپؒ نے فرمایا میں دیوانی نہیں، البتہ تو دیوانہ ضرور ہے کہ راز کی بات نہ سمجھ سکا۔ ارے جنت تو قید خانہ ہے اور مصیبت کا گھر ہے، اگر وہاں خدا کا قرب میسر نہ ہو۔ کیا تم نے حضرت آدم علیہ السلام کا حال نہیں سنا کہ جب تک ان پر خدا کا سایہ رہا کیسے آرام سے جنت میں میوہ خوری کرتے رہے اور جس وقت ان سے خطا سرزد ہوگئی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا تو خدا کی شفقت کا سایہ اٹھ گیا تو وہی جنت حضرت آدم علیہ السلام کیلئے قید خانہ اور مصیبت کا گھر بن کر رہ گئی۔
پھر فرمایا کہ کیا تمہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حال معلوم نہیں کہ جب وہ محبت الہٰی میں پورا اترے، جب وہ آگ میں ڈالے گئے تو وہ آگ ان کے لئے جنت و عافیت بن گئی، پس پہلے جنت کے مالک سے محبت پیدا کرو، پھر جنت میں جانے کی آرزو کرو۔ اس جنت میں جاکر کیا کرو گے جہاں تم پر رب تعالیٰ کا سایہ نہ ہو۔ا گر جنت کسی مشتاق کوملے اور وہاں دیدار الہٰی نصیب نہ ہو تو ایسی جنت کس کام کی اور اگر عاشقوں کو بالفرض دوزخ بھی ملے، مگر وہاں دیدار الہٰی نصیب ہو تو ایسی دوزخ اس طرح کی جنت سے لاکھ درجے بہتر ہے، اسے شوق سے لے لو دنیا و مافیہا میں اور ساری کائنات میں اگر کچھ ہے تو وہ عشق الہٰی ہے۔“
طاقت میں تارہے نہ مے وانگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو ة(بحوالہ حضرت رابعہ بصریہؒ)