حکومت وقت، وزراء کے بیانات متصادم اور ہوائی، کیا اب تک اپوزیشن میں ہیں؟
ملتان کی سیاسی ڈائری
شوکت اشفاق
تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت ابھی تک صوبوں سمیت وفاق میں بھی اپنے قدم جما نہیں پا رہی ، دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں ہے نت نئے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت میں ہونے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ، حالانکہ اب وقت آچکا ہے کہ ایک بڑی اپوزیشن متحد ہو نے کی بجائے صدارتی انتخاب پر نہ صرف منتشر ہو چکی ہے بلکہ اس کا سیاسی فائدہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کو حاصل ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں چاہیے تو یہ تھا کہ وہ سب کچھ بھول اور پس پشت ڈال کر اپنی سیاسی حکومت کو مضبوط کرنے میں تمام تر توانائیاں صرف کرتے لیکن مشاہدہ کچھ اور بتا رہا ہے کہ اہم وزارتوں پر براجمان وزراء ایسے ایسے ہوائی بیان جاری کر رہے ہیں جس سے ایک طرف تو حکومت کی اپنی ساکھ متاثر ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف عوام کی طرف سے عدم تحفظ کا عنصر بھی نمایاں ہو رہا ہے خصوصاً پاور سیکٹر غیر ملکی کرنسی کے حکومتی ذخائر، حج، زراعت، گیس اور اس قسم کے دوسرے اہم ایشوز پر بیانات اگر یہی حالات رہے تو آنے والے دنوں میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس پر وزیر اعظم سمیت وزراء کا یہ بیان کہ عوام کو مزید سخت فیصلوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔
پنجاب کا بجٹ آخری مراحل میں ہے اب اس سے جو ’بم‘‘ عوام پر گرایا جاتا ہے وہ بھی سامنے آجائے گا، دوسری طرف وفاقی حکومت نے معاشی بحران سے بچنے کا کہہ کر ترقیاتی بجٹ کو آدھے سے کم کر دیا ہے اور میگا پراجیکٹس کی ایک بڑی تعداد منسوخ کر دی ہے البتہ پہلے سے جاری منصوبوں کی تعمیر کے لئے فنڈز دینے کی نوید سنائی گئی ہے اب یہ جاری منصوبے کون سے ہوں گے اس کا تو کوئی اعلان نہیں ہوا لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ ’’برق‘‘ اس مرتبہ بھی جنوبی پنجاب پر ہی گری ہے اور یہاں جاری منصوبے انتہائی سست روی کا شکار ہو گئے ہیں خصوصاً فیصل آباد تا ملتان موٹر وے ایم فور کا منصوبہ جو 2012 سے زیر تکمیل ہے ایک مرتبہ پھر مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گا اسی طرح لاہور تا عبدالحکیم موٹر وے ابھی تک مفروضوں پر ہی نظر آرہی ہے دریائے سندھ پر ایک نئے پل کی تعمیر اور بے نظیر شہید برج کی رابطہ سڑکیں بھی اب خوابوں میں ہی بن سکیں گی تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی 28 سے زیادہ صوبائی اسمبلی کی 56 سے زیادہ نشست دلوانے والے خطے کے باسیوں کو اطلاع ہو کہ ان کا الگ صوبہ تو یہ کیا بنے گا پہلے وہ ان ’’طفیلی‘‘ ترقیاتی پراجیکٹس کا ہی ماتم کر لیں ویسے بھی محرم الحرام ہے لہذا غم حسین کے ساتھ اگر اسکا سوگ بھی منالیں تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ورنہ اگلے کئی سال سسکیاں بھرنے گزریں گے کیونکہ ان کے لئے ایک بہت ہی بری خبر ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے بگلہیار ڈیم میں ہمارے دریائے چناب کا 60 ہزار کیوسک سے زیادہ پانی گذشتہ کئی روز سے روک رکھا ہے جس کی وجہ سے ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب،جموں نوی، مناوری توسی میں پانی کی آمد محض 20 ہزار کیوسک رہ گئی ہے جبکہ ہیڈ خانکی کے لئے اخراج صرف 6 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ نہر اپر چناب کو صرف 18 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے اس حوالے سے جو اطلاعات ہیں، ان کے مطابق بھارت نے سازش کے تحت ہمارے حصے کا پانی غیر قانونی روکا ہے جس کی بناء پر ہیڈ مرالہ، ہیڈ خانکی، ہیڈ رسول اور ہیڈ تریموں سے چلنے والی تمام نہروں میں پانی کی شدید قلت کے باعث تقریباً بند کر دیا گیا ہے جس کا تمام تر اثر جنوبی پنجاب کی زراعت پر پڑے گا اور خدشہ ہے کہ متعدد اضلاع خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے اور فصلوں کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے واضح رہے کہ یہ وہی فصلیں ہیں جو ملکی معیشت میں آج بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ محض ایک دن میں نہیں ہوا اس میں ماضی کی حکومتوں کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا اب موجودہ حکومت کا ہو سکتا ہے ۔ جب کراچی میں پالیسی اور ترقیاتی کاموں پر بات کریں گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے آئین پاکستان میں 18 ترمیم قبلہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ایسے ہی نہیں کروا لی تھی وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا بیان اس کی تائید کے لئے کافی ہے جو انہوں نے وزیر اعظم کی طرف کراچی کے مختلف پراجیکٹس کے حوالے سے دیا تھا بہتر ہو گا کہ قانون کے وزیر فروغ نسیم سے اس حوالے سے مشاورت کر لیں کیونکہ اس ترمیم میں ان کی جماعت کا بھی بنیادی حصہ ہے اب انصافی حکومت یہ سمجھ پائی ہے کہ نہیں اس کے لئے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
بہت عرصے کے بعد نیب ملتان میں کچھ ہل چل ہوئی ہے اور میٹرو کرپشن پر جاری تحقیقات کی روشنی میں سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر صابر سدوزئی سمیت انجینئرنگ سے متعلقہ 6 افراد کو ایم ڈی اے دفتر سے حراست میں لے کر ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے اب ان کرداروں کے بیانات کی روشنی میں پراجیکٹ سے متعلقہ بڑے ’’مگرمچھوں‘‘ پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جس وقت میٹرو ملتان زیر تعمیر تھی تو میڈیا نے اس میں ہونے والی میگا کرپشن ثبوت کے ساتھ اجاگر کی تھی لیکن چونکہ اس وقت ان کا ’’زور‘‘ تھا اس لئے بوجوہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا اب شاید وقت آگیا ہے اس پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران ملتان ترقیاتی ادارہ میں ڈائریکٹر جنرل کا اضافی چارج اور گریڈ 18 میں ہونے کے باوجود گریڈ 19 کی نشست پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل الطاف ساریو سمیت ڈائریکٹر فنانس لیگل اور دوسرے ذمہ داران بھی اس کی زد میں آئیں گے ویسے میٹرو ملتان کی تعمیرات میں جو تاریخی غلطیاں اور کرپشن ہوئی ہے اس کی نظیر شاید ہی اس خطے میں نہ مل سکے ادھر ضمنی انتخابات کا شور بھی ابھر رہا ہے اور ایک مرتبہ ’’ووٹر‘‘ اہم ہونے والے ہیں لیکن محض کچھ حلقوں میں ہوں گے دیکھیں اس مرتبہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔