ملک کو انتہا پسندی ،دہشتگردی سے بچانے کیلئے تعلیم نسواں کو فروغ دیا جائے :مقررین
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)وفاقی اردویونیورسٹی ، ادارہ برائے اسلامی تحقیق، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور پیمان ٹرسٹ کے اشتراک و تعاون سے وفاقی اردو یونیورسٹی میں دختران پاکستان کے ذریعے معاشرے میں امن کا قیام کے موضوع پر یک روزہ ورکشاپ منعقد ہوئی ، اس ورکشاپ میں پروفیسرز اور دانشوروں نے انتہا پسندی کی بنیادی و نفسیاتی وجوہات ، ہارمونز کی تبدیلیوں سے متشددانہ رویوں اور انتہا پسندی کے اسباب و عوامل پر تفصیلی لیکچر دیئے اور انتہا پسندی کے تباہ کن اثرات سے سول سوسائٹی کو بچانے کیلئے انتہا پسندی کی روک تھام اور معاشرے میں امن کے فروغ اور قیام و استحکام میں خواتین کے اہم ترین کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد امن کے فروغ و استحکام کیلئے خواتین کو رضاکارانہ طور پر ایک پلیٹ فارم پر متحد اور منظم کرنا تھا۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سماجی علوم کے ممتاز دانشوروں نے کہا کہ خواتین کسی بھی معاشرے کا اہم ترین جزو ہوتی ہیں جوکہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں کنبے اور خاندان پر اثر انداز ہوتی ہیں جبکہ ماں کی گود ہی بچے کی بنیادی تربیت گاہ تسلیم کی جاتی ہے، گھریلو ماحول لوگوں کی زندگی پر مثبت اور منفی ہر طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے، اگر گھر کا ماحول مطہر و پاکیزہ ہو تو بچے بھی نیک سیرت ہوتے ہیں اور اگر گھریلو ماحول پرا گندہ ہو تو اسکے بچوں کی ذہنی نشوونماپر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرتی اصلاح و بگاڑ میں خواتین کا کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں خواتین کو اپنی اہمیت تک کا احساس نہیں ہوتا اور وہ عامیانہ انداز میں اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں اور بچوں کی کردار سازی پر کوئی توجہ اس لیے بھی نہیں دیتیں کہ اس حوالے سے ماں کی بھی ذہنی اور فکری تربیت نہیں کی جاتی۔ارسطو نے کہا تھا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور معاشرے کا ماحول اس پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اسلام میں ماں کے قدموں تلے جنت ہونے کا فلسفہ بھی جہاں ماں کی عزت و تکریم کو اجاگر کرتا ہے وہاں ماں کی گود کو بچے کی پہلی تربیت گاہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے دانشوروں نے کہا کہ خواتین ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور استاد کی حیثیت سے مثالی معاشرے کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہیں اگر مائیں اپنے بچوں کی پرورش کے دوران انہیں اسلامی معاشرے کے بنیادی اصول سکھائیں تو وہ بڑے ہوکر نہ صرف کامل و اکمل انسان بن سکتے ہیں بلکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اسلامی فلسفے کے مطابق معاشرتی اصلاح کیلئے بھی یادگار کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے بھی معاشرتی بگاڑ پیدا ہوا مگر موجودہ دور میں بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم دلانے کے روجحان میں اضافہ ہوا ہے جوکہ خوش آئند امر ہے، تاہم اس سلسلے کو منظم انداز میں مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں خصوصا پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر اب بھی توجہ نہیں دی جاتی جبکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں شرپسند طالبان گروہوں نے لڑکیوں کے سینکڑوں تعلیمی ادارے مسمار کر کے طالبات کی دنیاوی تعلیم روکنے کی گہری سازش کی اورگرلز سکولوں پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے جس کی ایک مثال ملالہ یوسف زئی کے سکول میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ بھی ہے ،ظالمان نے اس طرح کی سینکڑوں دوسری بھیانک وارداتیں بھی کیں مگر یہ اہل وطن کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے ملک کی افواج نے مختلف آپریشن کر کے طالبات کے سکولوں پر طالبان کے دہشت گردانہ حملوں کا نہ صرف مستقل سد باب کیا ہے بلکہ جنونی انتہا پسند دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا بھی مکمل صفایا کر کے ہماری قوم کے مستقبل سے کھیلنے والے غیر ملکی ایجنٹوں کی بھی بیخ کنی کی ہے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ گرلز سکولوں کا اجراکیا جائے اور دورافتادہ دیہاتوں میں سادہ لوح عوام کو تعلیم نسواں کے فوائد سے روشناس کرایا جائے جبکہ خواتین کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والی اساتذہ کی بھی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جائے اور تعلیمی نصاب میں بھی عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق اصلاح کی جائے۔