9/11کے 19سال
امریکہ میں 9/11کے19سال پورے ہونے پر امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے صدراتی امیدوار جوبائیڈن کے ساتھ ساتھ امریکی میڈیا کے بڑے حصے میں ایسا تاثر دیا گیا کہ آج کی دنیا9/11 سے پہلے کی دنیا کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔یہ تاثر کس حد تک درست ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں 9/11جیسے بڑے واقعہ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔
تاریخ عالم بتاتی ہے کہ ہماری دُنیا میں کئی ایسے بڑے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے دنیا پر انمٹ نقوش ہی نہیں چھوڑے،بلکہ ایسے بڑے واقعات کے بعد دُنیا ہی بدل گئی۔قرون وسطیٰ کے عہدکے بعد یورپ میں برپا ہونے والی نشاۃ ثانیہ اور اس جیسی کئی تحریکوں کے نتیجے میں جنم لینے والے سیاسی واقعات نے سماجی، معاشی اور سائنسی اعتبار سے جہاں یورپ کو براہِ راست متاثر کیا۔ یورپ میں بہت سے انقلابات بر پا ہوئے تو یورپ کے ان انقلابات کے اثرات براعظم ایشیا، افریقہ اور امریکہ میں بھی پھیلے۔ زیادہ پرانی تاریخ میں جائے بغیر اگر 20وی صدی کے ہی چند بڑے واقعات کو کو سامنے رکھیں تو پہلی جنگ عظیم (1914_1918) انقلاب روس(1917)،دوسری جنگ عظیم (1939 _1945)سرد جنگ کا زمانہ، اور پھر 1991ء میں دیوار برلن کا انہدام یہ ایسے بڑے واقعات تھے کہ جنہوں نے دنیا کے بڑے حصوں کو متاثر کیا۔ اسی طرح اگر ہم 21وی صدی کو دیکھیں تو اب تک جس بڑے واقعہ نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا اورجس واقعہ کے بعد دنیا پہلی والی دُنیا نہیں رہی وہ 9/11کا واقعہ ہے۔9/11کے واقعے کو اب 19سال گزر چکے ہیں۔
اس واقعہ کی دُنیا بھر سے بھرپور مذمت کی گئی کیا مشرق کیا مغرب سنجیدہ طبقات نے اس واقعہ کو انسانیت سوز قرار دیا، جس میں 3ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے۔اسی واقعہ کو جواز بنا کر امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔9/11کے واقعہ کو 19سال گزرنے پر کیا امریکی حکمران طبقات کا یہ دعویٰ درست کہ آج کی دنیا 9/11سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ پُرامن ہے؟ آئیں اس بارے میں دُنیا کے اہم تحقیقی اداروں، تھنک ٹینکس اور اخبا رات میں شائع ہونے والے چند اعداد و شمار سے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2001ء سے دسمبر 2017ء تک اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں روزانہ دہشت گردی کے 19حملے ہوئے، جبکہ 1970ء سے 2001ء کے 31 برسوں کو دیکھا جائے تو اوسط کے اعتبار سے روزانہ صرف 6حملے ہوئے۔واٹسن ادارے کی ”براون یونیورسٹی“کے مطابق نومبر2018ء تک دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے صرف تین ممالک، یعنی پاکستان، عراق اور افغانستان میں 244,000شہری ہلاک ہوئے جبکہ شام، یمن اور لیبیا میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔یوں یہ اعداد و شمار واضح طور پر ثابت کر رہے ہیں کہ ان ممالک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ایک پاکستانی کے طور پر ہمیں آج بھی یاد ہے کہ چار، پانچ سال پہلے تک ہر روز اخبارات اور نیوز چینلز پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گرد حملوں اور اس کے نتیجے میں ہو نی والی ہلا کتوں کی خبروں سے بھرے ہوتے تھے۔
9/11کے حوالے سے بہت سے سازشی نظریات پائے جاتے ہیں، جن میں سے اکثر بالکل غیر منطقی ہیں ان سازشی نظریات کو علمی ذہن تو دور کی بات ”کامن سنس“ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتی،مگر یہ بات کسی بھی طرح کے شک سے با لاتر ہے کہ امریکی حکمران طبقات نے 9/11کو بنیاد بنا کر بہت سے مقاصد حاصل کئے۔امریکہ میں شخصی آزادی کے تصور کو محدود کیا گیا۔امریکہ نے اسی واقعہ کو بنیا دبنا کر اپنے سامراجی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا گیا، 2003ء میں عراق پر حملہ کیا گیا۔دنیا کے کئی ممالک میں ”سی آئی اے“ کے خفیہ آپریشنز کے ذریعے کئی افراد کو ہلاک کیا گیا۔لیبیا اور شام میں اپنی حامی حکومتیں لانے کے لئے ان ملکوں پر جنگیں مسلط کی گئی۔امریکہ کے معروف صحافی سیمور ہرش اپنی کتاب Reporter: A Memoir میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ کیسے امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے عراق پر حملہ کرنے کے لئے پورا ڈرامہ رچایااور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کروایا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیا ر مو جود ہیں۔ عراق پر قبضے سے امریکہ نے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ مشرق وسطیٰ میں ہر ایسی آوازکو دبا دیا جائے کہ جو امریکہ کے سامراجی عزائم کے راستے میں رکا وٹ ہو۔
سیمور ہرش کے مطابق عراق کا کنٹرول حاصل کر کے امریکہ نے یہ کوشش بھی کی کہ یورپ کو توانائی اور تجارتی راستوں کے لئے بھی اپنا محتاج بنا یا جائے، مگر امریکہ کی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے غبارے سے اس وقت ہوا نکلنے لگی جب امریکہ نے لیبیا اور شام میں القاعدہ کے حامی گروپوں کو ہی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا یعنی ایک مرتبہ پھر انہی اسلامی جہادیوں کی حمایت کر نا شروع کر دی کہ جن جہادیوں کے خلاف اس نے 9/11کے بعد اعلان جنگ کیا تھا۔2018ء میں پینٹاگون نے اپنی قومی دفاعی حکمت عملی کے ڈاکو منٹ میں واضح کیا کہ اب امریکہ کا بنیا دی مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ روس اور چین جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
9/11کے 19سال پورے ہونے پر سی آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈاریکٹر مائیکل موریل کا آرٹیکل بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق روس اور چین مشرق وسطیٰ میں امریکی کنٹرول برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے امریکہ کو اب براہِ راست روس اور چین سے نمٹنا پڑے گا۔روس اور چین بھی امریکی عزائم سے مکمل طور پر باخبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس تیزی سے اپنے ایٹمی ہتھیا روں میں اضا فہ کر رہا ہے۔ روس نے کچھ عرصہ پہلے ہی 37سال کے بعد سب سے بڑی فوجی مشقیں کی۔ان فوجی مشقوں میں 300,000روسی فوجیوں نے شرکت کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کی فوج نے بھی روس کی فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔ روس اور چین جیسی بڑی ایٹمی طا قتوں کے ساتھ امریکہ کا برا ہ راست ”پنگا“ بڑی تباہی کو جنم دے سکتا ہے۔ اس صورتِ حال سے عالمی امن شدید طرح سے متا ثر ہو سکتا ہے۔