ریاست کا سر درد؟
کیا یہ پہلا اندوہناک واقعہ ہے؟ ریاست پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسی ریاست پر ہوتا ہے جو بنیادی طور پر خدمت کے لئے نہیں حکومت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ ایک نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچہ اپنے کردار میں عوام دشمن ہوتا ہے، لیکن اس میں ایک کیفیتی فرق Qualitative اس وقت دیکھا جا سکتا ہے جب یہ قدرے فرض شناس اور ایماندار لوگوں کے ہاتھوں میں عمل دار ہو۔ انگریز دور میں بھی یہی ریاستی ڈھانچہ تھا، لیکن مجرم کا بچ نکلنا اور ایک ہی طرح کے جرائم کا تسلسل کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ بڑے بڑے رئیس اور امرا کبھی اپنی ریاست میں اس قانون کی عملداری میں کم ہی رکاوٹ بن سکتے تھے۔ صرف اس لئے کہ حکمران اپنے نو آبادیاتی مفادات میں قانون کی عملداری کو ضروری سمجھتے تھے،مگر مقامی با اختیار لوگ ان کے سامنے جواب دہ تھے اور جب اختیار اور حکومت مقامی حکمران طبقات کے ہاتھوں میں آیا تو ترجیحات بدل گئیں۔ پہلی ترجیح حکومت پر مسلسل اختیار ہے۔ وزارت اور اسمبلی کی رکنیت کے حصول کے لئے صرف با اختیار مورچے کی ضرورت ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اور اس کے ساتھ وفاداری کی کوئی ضرورت نہیں۔
مسلم لیگ کے درجن بھر دھڑے ہوں، پیپلز پارٹی ہو، تحریک انصاف ہو، کسی کی کوئی اہمیت ہے تو صرف یہ کہ کب یہ نشست دلوا سکتی ہے۔ آج کے بیشتر وزیر گزشتہ تمام حکومتوں میں بھی وزیر تھے۔ صرف شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور عمر ایوب کی مثال ہی کافی ہے۔ سو ترجیحات میں نہ پاکستان کے عوام ہیں اور نہ ہی ان کی زندگی۔
دولت کا حصول اس لئے ضروری ہے کہ انتخاب لڑنا ہے اور انتخاب اس لئے لڑنا ہے کہ اختیار اور دولت حاصل کرنی ہے۔ سو ایسے معاشرے میں ریاست محض ایک ذریعہ بنتی ہے اختیار اور دولت کمانے کا، لہٰذا ریاست حکمرانوں کے کاموں کے لئے وقف ہوتی جاتی ہے۔ حکمران سیاسی ہو یا غیر سیاسی،اس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں۔ جمہوریت میں بھی ریاست نے یہی کام کرنا ہے اور آمریت میں بھی جمہوریت والے ہی آمریت کا دست و بازو بنتے، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں، پھر یہی کامیابی عوام کے لئے اندوہناک حادثات کا سبب بنتی ہے۔ جب لاہور میں سو بچوں کے قاتل کو پولیس نے راتوں رات اس کے ایک نو عمر ساتھی کے ساتھ قتل کر دیا تھا تو کس نے اس کی تفتیش کروانے کی ضرورت محسوس کی؟وہ درندہ اس لئے ختم کر دیا گیا تھا کہ تفتیش میں اس کے ایسے ساتھی بے نقاب ہو سکتے تھے،جو اس علاقے میں سرکاری فرائض سر انجام دیتے ہوں گے۔ جرائم کے منظر پر نظر ڈالیں تو اس میں جرائم کی بیخ کنی کا فرض ادا کرنے پر تعینات ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ نظر آتے ہیں جو جرائم کے ارتکاب ہی کو کاروبار سمجھتے ہیں۔
جرائم پیشہ افراد ڈکیتی، رہزنی، قبضہ گیری، جوا اور منشیات میں مصروف رہنے کے باعث اس عمل میں تمام انسانی حدود و قیود سے ماورا ہو جاتے ہیں اور سیاست کے مقتدر افراد اپنے کو ایسے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بعض گھناؤنے جرائم پر ہمارے اعلیٰ ترین عہدوں پر مامور افراد بھی نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک قانون کی طالبہ پر چھریوں کے درجنوں وار کرنے والا درندہ ہائی کورٹ سے بری ہو جاتا ہے اور پنجاب کا ایک سابق گورنر اس لڑکی کے حملہ آور کو معاف کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس سارے منظر میں ہم سانحہ ساہیوال کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ جب ماں باپ کے ساتھ ایک دس بارہ سال کی بچی کو بے رحمی سے فائرنگ کر کے شہید کر دیا جاتا ہے۔ سی سی پی او کے خلاف مطالبات کی کیا اہمیت ہے، اگر اس کی جگہ کوئی دوسرا سی سی پی او ہوتا تو کیا وہ مجرم کو پکڑ کر آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوتا، وہ بھی کم و بیش ایسے ہی سوال و جواب آپ کے سامنے پیش کر دیتا۔ معاملہ ایک سی سی پی او کا نہیں ہے، معاملہ پورے ریاستی نظام سے جڑا ہوا ہے، پوری سیاسی قیادت اور پوری ریاستی قیادت سے جڑا ہوا ہے۔ آج پاکستان کی اسمبلیوں میں کتنے سیاست کار ہیں،جو ملک کے بارے میں سوچ کر سیاست کرتے ہیں، جن کے پاس اپنے ملک کے عوام کی بہتری کا کوئی منصوبہ ہے؟ تعلیمی نظام ایک مثال ہے۔
چالیس برس تک اس ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی قیادت نے کبھی یہ سوچا کہ آخر پڑوسی ملک بھارت نے آج سے تیس برس قبل اپنے ملک سے آکسفورڈ، کیمبرج اور نام نہاد امریکن گرائمر سکول نظام کیوں ختم کر دیا تھا؟جب ایک بار پھر اسے جاری کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی کیوں مخالفت ہو رہی ہے؟یہاں سیاسی قیادت اپنے عوام کو اپنی زمین سے دھرتی سے جوڑے رکھتی ہے اور مقامی زبان اور روایت کے مطابق بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے ملک کے اخلاقی رویوں پر چلنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ حیرت ناک یا اچنبھے کی بات نہیں کہ جب سے بھارت میں ہندو بنیاد پرستی مضبوط ہوئی ہے۔ بھارت میں عورتوں، بچوں،نچلی ذاتوں اور مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان میں نعرے بازی ترقی پسند سماج کی تعمیر کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ کوئی ایک جلوس، مہنگائی، بیروزگاری، بے زمین کسان کے لئے زمین کے حصول کے حق میں نہیں نکلتا۔
مذہبی اور علاقائی مطالبات اہمیت اختیار کر چکے ہیں تو سیالکوٹ موٹر وے پر سیکیورٹی کی کیا ضرورت ہے۔ ارکان اسمبلی وزراء اور سول و بیورو کریسی کو سیکیورٹی کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ایک نوآبادیاتی ریاست کا قیمتی سرمایہ ہیں۔نہ جانے کتنی بچیاں،بچے، عورتیں جنسی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہزاروں گھر اور لوگ ہر روز لوٹ لئے جاتے ہیں، لیکن یہ ریاست کا سردرد نہیں۔میڈیا نے ایک بار پھر اپنی اہلیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ کسی کو المناک واقعہ کے نتیجے میں مظلوم خاندان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ سب چیخ و پکار کر رہے ہیں، ہر ایک مظلوم عورت کی شناخت پر خبریں نشر کرنے اور میڈیکل رپورٹ کے حصول کو اپنا Scoop قرار دے رہے ہیں، کسی کو یہ احساس نہیں کہ خبر کی تفصیلات بد قسمت خاتون کی ذہنی کیفیت کو کیا نقصان پہنچا رہی ہے اور خاندان کے لئے کیسی اندوہناک شہرت کا باعث بن رہی ہے۔ ٹی وی چینلوں نے خواتین سیاست دانوں سے بات تو کر لی، لیکن شہری حقوق کے لئے سرگرم خواتین، انجمنوں اور صحافی خواتین کو ممکن حد تک ٹاک شوز سے باہر رکھنا ہی ضروری سمجھا۔ شاید یہ بھی ضروری تھا کہ اس ملک میں ہر ایشو پر خواتین کی رائے کی ایسی ضرورت نہیں ہے، خواہ وہ ان کی ہی جنس کی کسی المناک داستان کے حوالے سے کیوں نہ ہو۔