عورت ...
کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے ایک ذی شعُور فرد کے سامنے جب بھی کبھی عورت کا ذکر آتا ہے تو اس کا دل احترام اور جذبات اس لفظ کے تقدّس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔کیونکہ عورت صرف لفظ ہی نہیں بلکہ یہ ایک رشتہ ہے،عورت یا تو ماں ہے یا بہن ہے یا پھر بیوی ہے بلکہ عورت ایک خاندان ہے،آپ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک نسل کی بنیاد ہی عورت ہے۔
عورت کو اسلام نے بڑا مقام عطا کیا ہے۔اس کے حقوق پر بھی قرآن کریم،احادیث نبویؐ سمیت سیرتِ مصطفیٰؐ اور سیرتِ صحابہ کرام میں سَیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔اگر ہم بحثیتِ مسلمان ان تمام میں سے آدھے پہلوؤں پر بھی نظر دوڑا لیں تو ہم پر اس کی سچائیاں آشکار ہوجائیں گی۔
بہرکیف ہم تو ٹھہرے ایک بے حِس قوم،ایک بے حِس معاشرہ،بلکہ بےحس مسلمان۔ہم سے یہ قرآن و احادیث یا سیرت کی کتابیں چھان پٹک کر علم کے قطرے نہیں پیئے جاتے۔۔۔۔ہم تو بس زُبانی مسلمان اور شاہ ُ گدا بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ظاہر ہے جب ہمیں ان سب پیچیدہ پہلوؤں پر علم ہی نہیں ہوگا تو ایسے ہی نتائج موصول ہوں گے ناں ۔۔۔! آئے روز سننے کو ملتا ہے آج فُلاں عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوگئی،آج فُلاں کم سِن بچی کی عِزّت لُٹ گئی،آج یہاں جنازہ اُٹھ گیا آج وہاں ایسا ہوگیا ویسا ہوگیا۔
حضُورِ والا ۔۔۔آنکھیں کھولیے ان معاملات کو دیکھیے،تحقیق کیجیے،آخر کب تک ہم برداشت کرتے رہیں گے اس طرح کے ظُلم سِتم۔۔۔۔؟کب تک ہماری بہن بیٹیاں ان سفّاک درندوں کے ڈر سےخود کو گھر کی چاردیواری میں قید کیے بیٹھی رہیں گی؟کب تک اس آزاد ریاست میں "(جسے ہم نے اسلامی اصولوں پر حاصل کیا،جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے") خود کو غیر محفوظ تصّور کرتی رہیں گی؟کب تک ہماری بہن بیٹیاں دو نمبرناکام عاشقوں،اور ان بے غیرت،بے شرم مجرموں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر عزّتیں گنواتی رہیں گی؟
واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "کامیاب ریاست تو وہی ہے کہ ایک خوبصورت عورت زیورات سے لدی ہوئی مُلک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلی جائے اور اسے کوئی خطرہ نہ ہو" کیا ہمارے پاکستان میں ان درندوں سے حساب لینے والا کوئی نہیں؟کیا یہ عورت کی عزّت اچھال کر ماؤں،بہنوں یا بیٹیوں کے تقدّس پامال کرکے اسی طرح آزاد گھومتے پھریں گے؟
یاد رکھیں جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے تب تک اللہ بھی ہماری حالت نہیں بدلے گا،اب چاہے زینب کا واقعہ ہو یا موٹروے پر کھڑی گاڑی میں تنہا خاتون کا۔۔۔۔ یا پھر پاکستان کے کسی کونے میں کسی چھوٹے سے گاؤں کا۔۔۔۔؟ بس ضرورت ہے توسوچ کوبدلنے کی۔ذاتی طور پر ایک اچھا مسلمان،ایک اچھا شہری،یا پھر ایک اچھا پاکستانی بننے کی۔
جس تیزی سے ریپ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اسکے پیچھے نفسیاتی عوامل کا جاننا بھی بہت ضروری ہوگیا ہے ہم عورت عورت کی رٹ لگا کے مظلومیت کے رونے رو کے سفاکیت کو پروان چڑھائے جا رہے ہیں ہم اپنی بہن اور بیٹی کو بچاؤ کے طریقے سکھا رہے ہیں اور اکثریت تو عورت پہ پابندی۔ ہم اشتعال میں آ کے سوچتے ہیں کہ یہ مظلوم عورت میں یا میری کوئی بہن ،بیٹی بھی ہو سکتی ہے اور اس خوف میں کہ ہمارے ساتھ یہ سب نہ ہو ہم اس قسم کے جملے اپنے گھر کی بچیوں اور عورتوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں
اکیلے باہر مت جانا
کسی پہ اعتبار نہ کرنا
یہ درندے ہیں درندے
خود کو مظبوط بناو
انکے خلاف آواز اٹھاو
لیکن ہم کبھی بھی نہیں سوچتے کہ ریپ کرنے والا میرا باپ ،بھائی ،شوہر یا بیٹا بھی ہو سکتا ہے رہپ کرنے والا بھی ہم میں سے ہے ہمارے اردگرد ،شاید اپکے شاید میرے گھر میں ۔
جی یہ وہ ہی ہے جو ہمیں عزت دینے والا ،جسے ہم عزت دیتے ہیں جسے ہم اپنا محافظ کہتے ہیں ۔جسکے لاڈ نخرے اُٹھاتے ہیں ۔ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا وہ ریپسٹ ہمارے گھروں میں یماری انکھوں کے سامنے تو نہیں ۔
کبھی ایسے واقعے کے بعد اپ نے اپنے گھر کے مردوں سے پوچھا ۔۔کہ کہیں تم بھی تو عورت کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔
دیکھو کہیں تم ایسی حرکت نہ کر بیٹھنا
کبھی کہا کہ بیٹا اج کسی کی بیٹی کی عزت سے کھیلے تو کل تمھاری ماں بہن اور بیٹی کو اسکا خراج دینا ہو گا ۔
کبھی گھر سے جاتے ہوئے اسے کہا کہ آیت الکرسی پڑھ کے جاؤ کہ شیطان سے پناہ میں رہو ۔
کبھی دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ نیٹ پہ رات گئے کیا کر رہا ہے۔
کبھی اسے نفس پہ قابو رکھنے کے لیکچرز دیئے ۔
کبھی اسے کہا کہ عزت کا خیال رکھنا یہ پھر نہیں ملتی ۔
کبھی اسے احساس دلایا کہ دیکھو تمہارے جیسے کسی مرد نے اس کلی کو برباد کر دیا ۔
نہیں نا کبھی نہیں
تو سنو
جب تک ہم یہ مساوی رویہ نہیں اپناتے عورت کو اسکا نہ مقام ملے گا نہ عزت کیونکہ ہم بھیڑیے پیدا کرتے اور پالتے رہیں گے۔ یہ کر کے دیکھو اج پلےکارڈ عورت کی مظلومیت پہ اٹھا کے ہمدردی نہ مانگو اج اپنے گھر کے مرد سے اپنا حق مانگو ۔
اللہ ر ب العزت قسم یہ وہ نفسیاتی حربہ ہے جو تمہیں بھی بُرائی سے روکے گا اور ان مردوں کو بھی ، تو اپنے گھر سے صفائی کا یہ عمل شروع کریں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.