لبنان میں پیجر دھماکے
لبنان کے مختلف علاقوں میں منگل کے روز حزب اللہ ارکان کے زیر استعمال پیجروں میں ایک ساتھ دھماکے ہوئے جس سے 12افرد شہید جبکہ لگ بھگ تین ہزار سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ عرب میڈیا کے مطابق رابطوں کے لیے استعمال پیجر ڈیوائسوں میں یہ دھماکے جنوبی لبنان اور بیروت کے نواحی علاقوں میں ہوئے۔ مقامی حکام کے مطابق زخمی ہونے والوں میں 200سے زائد افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ واقعے کے فوری بعد ہسپتالوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا تاہم ہزاروں زخمیوں کے باعث اِن میں جگہ کم پڑ گئی تھی۔ میڈیا میں دکھائی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ زخمی افراد میں سے کسی کے بازوؤں، کسی کی ٹانگوں اور یہاں تک کہ کسی کے چہرے پر بھی شدید چوٹیں آئی ہیں۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ دھماکوں سے متعلق تمام حقائق اور معلومات کی جانچ کے بعد اسرائیل کو مکمل ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ تنظیم نے اسرائیل پر ”مجرمانہ جارحیت“ کاالزام عائد کرتے ہوئے انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ لبنانی سکیورٹی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ ارکان حالیہ ماہ میں لائی گئی پیجر ڈیوائس کا نیا ماڈل استعمال کر رہے تھے جن میں دھماکے سکیورٹی کی بڑی خلاف ورزی ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے پہلے ہی اپنے ارکان کو خبردار کر رکھا تھا کہ وہ اپنے ساتھ موبائل فون یا اِس طرح کی کوئی ڈیوائس نہ رکھیں کیونکہ اسرائیل اُن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے انہیں استعمال کر کے نقصان پہنچا سکتا ہے اور اِن آلات کی مدد سے اراکین پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اِسی مشورے کے نتیجے میں حزب اللہ رابطے کے لیے اِس پرانی ٹیکنالوجی ”پیجر“ کا استعمال کر رہے تھے کیونکہ اُن کے خیال میں پیجر کے برعکس سمارٹ فونز کے استعمال سے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے،اب اِن دھماکوں کے بعد زندہ بچ جانے والے حزب اللہ کے اراکین نہ صرف پیجر بلکہ موبائل فون، ٹیبلٹ یا دیگر الیکٹرانک آلات کا استعمال بھی ترک کر دیں گے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حزب اللہ نے چند ماہ قبل درآمد کیے گئے پانچ ہزار پیجروں کے اندر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا، مذکورہ پیجرز تائیوان کی ایک کمپنی سے خریدے گئے تھے تاہم اُس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ ڈیوائسیں تیار نہیں کرتی بلکہ ایک یورپی فرم نے اُنہیں اپنے برانڈ کا نام استعمال کرنے کے حقوق دیئے ہیں۔
لبنان میں منگل کو حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال ہزاروں پیجروں میں بیک وقت دھماکوں کے بعد سب سے اہم سوال یہی کیا جا رہا ہے کہ پیجرکیونکر پھٹ سکتا ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ انسانی جان ضائع ہو جائے؟ پیجر کو انٹرنیٹ کنکشن کے بغیر ٹیکسٹ پیغامات یا نوٹیفکیشن موصول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،90ء کی دہائی کے آخر میں اور سن 2000ء کے بعد موبائل فون کے عام ہونے سے پہلے پیجر استعمال کیا جاتا تھا،اِس کے ذریعے ٹیکسٹ پیغام یا مختصر نوٹیفکیشن بھیجا یا موصول کیا جا سکتا تھا جبکہ چند ایک ماڈل ایسے بھی تھے جن میں پیغامات کا جواب بھی دیا جا سکتا تھا۔ سمارٹ فون کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کے استعمال میں کمی ہوتی چلی گئی، یہ عوام میں تواب لگ بھگ متروک ہی ہو چکا ہے تاہم بعض مخصوص شعبوں مثلاً ہسپتالوں اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کام کرنے والے اِسے زیر استعمال رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اِسے فوری اور قابل ِ اعتماد اطلاعات کی بہم رسانی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسلحے اور بارودی مواد سے متعلق بعض ماہرین کی رائے میں ایسا ہونا اُسی صورت ممکن ہے کہ پیجروں میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا دھماکہ خیز مواد موجود تھا جسے کسی ”جعلی الیکٹرانک پرزے“ میں چھپایا گیا ہو گا اور جیسے ہی کوئی مخصوس سگنل (جسے ایلفا نیومیرک ٹیکسٹ میسج کہتے ہیں) ڈیوائسوں کو ملا وہ فعال ہو کر پھٹ گئیں۔ اُن کے مطابق اِس جیسے حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں جیساکہ 1996ء میں اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی ”شاباک“ نے حماس کے لیے بم بنانے والے ایک حملہ آور کے فون میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے اُنہیں ہلاک کیا۔ امریکی ایجنسی سی آئی اے کی ایک سابق اہلکار نے حالیہ واقعے کو ”سپلائی چین کا حملہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سپلائی چین حملہ تھا۔ لبنانی سکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آلات اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ”پروڈکشن کی سطح پر“ تبدیل کیا ہے، اِن میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا جو مخصوص کوڈ ملتے ہی متحرک ہو گیا اور پیجر پھٹ گئے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی چیکنگ ڈیوائس یا سکینر سے دھماکہ خیز مواد کے ہونے کا پتہ لگانا ممکن نہیں۔
بعض ماہرین کا اگرچہ یہ بھی خیال ہے کہ دھماکے پیجروں کی بیٹریوں کے گرم ہو کر پھٹنے سے بھی ہوسکتے ہیں تاہم ہزاروں پیجروں کا ایک ہی وقت میں اکٹھے پھٹنے، 12قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور پھر سینکڑوں افراد کی حالت کا تشویشناک ہونے کے باعث یہ رائے کافی کمزور لگتی ہے تاہم اگر اِسے مان لیا جائے تو یہ قریباً پانچ ارب افراد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جو سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ اِس کے علاوہ ہیں جو اربوں کی تعداد میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پیجر دھماکوں کو لے کر دنیا بھر میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے، زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا شمار ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا کے سرِفہرست ممالک میں ہوتا ہے،اِس کی تیار کردہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس درجنوں مصنوعات دنیا بھر کے کئی ممالک میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے کئی ممالک کو جاسوسی کا ایک خاص سافٹ ویئر (پیگاسس) بھی مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے مخصوص افراد کی جاسوسی کی جاتی ہے تاہم مذکورہ سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی ”این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز“ کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایسے ”ٹولزئ“ بناتی ہے جن کی مدد سے حکومتیں ایسے مجرموں کا تعاقب آسانی سے کر سکتی ہیں جو رابطے کے لیے خفیہ یا اِنکریپٹڈ ذرائع کے بل پر قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ یہ بحث ایک طرف، کمپیوٹر ہارڈ ویئر کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ پیجر کی بیٹری کے پھٹنے سے انسانی جسم کو کسی حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے، کچھ حصہ جل سکتا ہے تاہم انسانی جان کا چلے جانا انتہائی اچنبھے کی بات ہے، شاید ایسا اُسی وقت ممکن ہے کہ پھٹنے والی ڈیوائس کے ساتھ خاص قسم کا چند گرام ملٹری گریڈ بارودی مواد موجود ہو، اِسی بنیاد پر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک سائبر حملہ ہے خاص طور پر جب مختلف علاقوں اور شہروں میں ہزاروں پیجر ایک ہی وقت میں پھٹ جائیں۔ دنیا بھر میں سمارٹ فون استعمال کرنے اربوں افراد ہر دو صورت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا وہ خود اور اُن کا ڈیٹا محفوظ ہے؟ شاید اِن دھماکوں کے بعد یہ بات وثوق سے نہ کہی جا سکے کہ ہمارے روز مرہ معمول کے استعمال کی تمام الیکٹرانک اشیا کم از کم انسانی زندگی کی حد تک محفوظ ہیں۔ صارفین اِس بات سے تو آگاہ تھے کہ اُن کا ڈیٹا محفوظ نہیں ہے، کبھی بھی کوئی بھی اِسے ہیک کر سکتا ہے لیکن یہ بات عام آدمی کو معلوم نہ تھی کہ یہ الیکٹرانک ڈیوائسیں اِس طرح بھی پھٹ سکتی ہیں کہ انسانی جان ہی چلی جائے۔اِس سلسلے میں ذمہ داران کو غور و فکر کرنی چاہئے، اِس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر یہ کسی قسم کا سائبر حملہ ہے تو اِس سے بچاؤکی تدبیر کرنا لازم ہے تاکہ انسانی زندگی ایسے سائبر حملوں سے محفوظ رہ سکے۔