قائداعظم کی خوش لباسی!

   قائداعظم کی خوش لباسی!
   قائداعظم کی خوش لباسی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قا ئد اعظم محمد علی جناحؒ دنیا کے سب سے زیادہ خوش لباس رہنما تھے۔لارڈ ویول (1943-1947)نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ خوش لباسی اور نفاست کی وجہ سے ہر جگہ، ہر شخص ان کی عزت کرتا ہے۔ گویاؒ محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے نہایت خوش لباس اور نفیس انسان تھے۔لباس کے حوالے سے ان کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک اور وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے ایک خط میں جناح کے بارے میں اپنی والدہ کو لکھا:“بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔ ”لباس کے بارے میں تو بڑے بڑے خوش لباسوں نے یہ کہا کہ جس سلیقے سے لباس زیب تن کرتے تھے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ نہایت صاف شفاف اور بے شکن لباس پہنتے، اگر کبھی سوٹ کے بجائے Combinationپہنتے تو اس کا بھی انتخاب نہایت احتیاط اور سلیقے سے کرتے تھے۔ غرض، ہر اعتبار و معیار سے قائداعظم انتہائی خوش لباس آدمی تھے۔

قائداعظم کے والد جناح پونجا چوں کہ تجارت پیشہ اور انگریزوں سے قریبی رابطے میں رہتے تھے، اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان سے آشنا تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ کراچی کے اس ماحول میں ؒ بھی نہ صرف بچپن ہی سے اس لباس سے آشنا تھے،بلکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔

1892 ء میں محمد علی جناحؒ انگلستان چلے گئے، جہاں انہیں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت حاصل کرنا تھی، لیکن انہوں نے لنکزاِن میں داخلہ لے لیا اور بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قیام کے دوران انہیں کوٹ، پتلون اور ٹائی کا مستقل استعمال کرنا پڑا، جس کی بنا پر اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی وہ آشنا ہوگئے۔ 1896ء میں لندن سے واپس آکر محمد علی جناحؒ نے بمبئی میں سکونت اختیار کی اوربہ طور پیشہ، وکالت کا آغاز کیا۔ بہ حیثیت وکیل محمد علی جناح کا واسطہ بمبئی کی آبادی کے اسی طبقے سے تھا، اس لیے انہیں لندن سے ہندوستان واپس آکر لباس کے انتخاب کے سلسلے میں کسی تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ اپنی عدالتی و سماجی ضرورتوں کے پیش نظر کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے۔نتیجتاً 1906ء میں وہ سیاسی زندگی میں داخل ہوئے تو یہ لباس آہستہ آہستہ ان کی شخصیت سے بڑی حد تک مشروط ہوگیا۔

1934 ء میں مسلم لیگ کی از سر نو صدارت قبول کرنے کے بعد ایک عرصے تک قائداعظم عموماً اچکن کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ ہی استعمال کرتے تھے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ کاٹھیاواڑ، خصوصاً جونا گڑھ، میں اس طرز کے پاجامے، اچکن کے ساتھ پہنے جاتے تھے اور یہ لباس ایک اعتبار سے انؒ کا آبائی لباس تھا۔ اکتوبر 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس، منعقدہ لکھنو، میں بھی قائداعظمؒ نے اسی لباس میں شرکت کی تھی۔ 

قائداعظم ؒکے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ1937ء کے بعد مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے طالب علموں سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے اور اکثر علی گڑھ جاتے رہتے تھے۔ابتدا میں آپ نے علی گڑھ کٹ شیروانی پہنی۔یہ شیروانیاں علی گڑھ ہی کی ایک درزی کے پاس سے سِل کر آتی تھیں۔ وہ انگریزی لباس میں ہوتے یا شیروانی میں، ان کی شخصیت ہر لباس میں پروقار اور جاذب نظر ہوتی تھی، آپ بیش تر ریشم کا یا سوتی لباس زیب تن کرتے تھے، آپ کے لباس کا ستھرا پن دراصل آپ کی باطنی صفائی کا بھی آئینہ دار تھا۔

ایک انگریز صحافی اور Indian Summar نامی کتاب کے مصنف جیمز کیمرون نے قائداعظم کی نفاست پسندی کا ذاتی مشاہدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ 1945ء میں محمد علی جناح کا انٹرویو کرنے گیا۔ جناح نہایت شان دار سوٹ میں ملبوس تھے، سوٹ کی سلائی اور ایک ایک ٹانکے سے نفاست عیاں تھی،استری اس انداز سے ہوئی تھی کہ سوٹ کی ہر کریز تلوار کی طرح دھارلیے ہوئے تھے، اعلیٰ قسم کے لینن کے سوٹ میں ان کی آہنی شخصیت بڑی متاثرکن لگ رہی تھی۔

 قائداعظم محمد علی جناح ؒنے تحریکِ پاکستان کے دوران جناح کیپ اور شیروانی کا استعمال شروع کیا تو آہستہ آہستہ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے بھی اس لباس کو اپنالیا قائداعظمؒ اور مہاتما گاندھی کے درمیان دو قومی نظریے پر جب مکالمہ ہوا تو قائداعظمؒ نے مسلمانانِ ہند کے علیحدہ تشخص پر جہاں بہت سے دلائل دئے وہاں انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ علیحدہ لباسوں کا بھی تذکرہ کرکے دو قومی نظریئے کو اجاگر کیا۔ سر سید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے یونیورسٹی کا یونیفارم شیروانی کو منتخب کیا اور اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کا ٹریڈ مارک بھی سیاسی طور پر شیروانی ہو گیا۔ 1930ء کی دہائی میں قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تو اپنی عوامی تقریبات میں شیروانی کو بطور لباس زیب تن کیا۔

 جناح کیپ کو قائد کے استعمال سے پہلے ”قراقلی“ ٹوپی کے نام سے جانا جاتا تھا یہ ٹوپی بھیڑ کی کھال سے بنائی جاتی ہے۔ 1937ء میں ”قراقلی“ کیپ کو قائداعظم نے اپنے لباس کا حصہ بنایا انہوں نے ”قراقلی“  ٹوپی اور شیروانی پہن کر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ قوم کا خیال پیش کیا اس کے بعد یہی ”قراقلی“  ٹوپی جناح کیپ کے نام سے موسوم ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک جناح کیپ اور شیروانی ہماری قومی پہچان بن گئی۔ جناح کیپ اور شیروانی پاکستان کا قومی لباس جسے پہن کر ہر پاکستانی فخر محسوس کر تا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -