نئے بحرانوں کو جنم نہ دیں
عوام بھی بھولے بادشاہ ہیں، وہ سمجھتے ہیں حکمران جن باتوں کے لئے بے تاب ہیں وہ ان کے بھلے کے واسطے کی جا رہی ہیں، اس بات سے امید باندھ لیتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ حاکمان وقت جو کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ممکن ہو جائے،اس کا اندازہ مجھے کل شیدے ریڑھی والے سے مل کر ہوا، جس کے پاس دو تین اور محنت کش بھی موجود تھے، شیدے کا سوال تھا بابو جی یہ آئینی بل کیوں مؤخر ہو گیا ہے حکومت اگر عوام کے حق میں کوئی اچھا کام کرنا چاہتی تھی تو اس کی راہ میں مولانا فضل الرحمن نے روڑے کیوں اٹکائے، یہی سوال پاس کھڑے ایک محنت کش نے بھی پوچھا جو تھوڑا پڑھا لکھا لگتا تھا۔ میں سوچنے لگا یہ سب سمجھ رہے ہیں، جو 50 نکات پر مشتمل آئینی ترمیمی بل حکومت پاس کرانا چاہتی تھی وہ عوام کے مفاد میں تھا جسے عوام دشمن قوتوں نے پاس نہیں ہونے دیا میں نے کہا شیدے اس بل میں تو کوئی بھی شق عوام کے لئے نہیں مثلاً نہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی کوئی بات ہے اور نہ مالداروں سے ٹیکس وصول کی کوئی شق، مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی بڑی کوشش اس بل میں دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی قانون سازی جس سے براہ راست عوام کو کسی طاقتور کے مقابلے میں حقوق مل سکیں،یہ تو سب کچھ بالائی طبقوں کے لئے کیا جا رہا ہے، کسی کو توسیع دینی ہے اور کسی عدالت کو زیر نگیں کرنا ہے۔ شیدا اور اس کے ساتھی میری باتیں سن کر مایوس ہو گئے، پھر شیدے کے ذہن میں ایک اور سوال کلبلایا، اس نے کہا کیا حکومت ایسا بھی کر سکتی ہے کہ ان حالات میں جب عوام مشکلات کا شکار ہوں ایک ایسی قانون سازی کے لئے بے تاب نظر آئے، جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں؟ میں نے کہا شیدے میاں، یہ پاکستان ہے یہاں عوام کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا بس ان کا نام ضرور لیتا ہے یہ جو کچھ ہو رہا ہے، صرف اشرافیہ کے مفادات کی گیم ہے، اس سے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا تاہم فی الوقت جو نظر آ رہا ہے کچھ طبقے عوام کے موڈ کو نظر انداز کر کے قانون اور ترامیم کے ذریعے حالات کا پانسہ پلٹنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے ایسے اقدامات سے حالات میں تبدیلی آ جائے گی، حالانکہ تبدیلی تو عوام کی وجہ سے آتی ہے جو اس سارے عمل کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں خیر میں شیدے ریڑھی والے سے تو جان چھڑا کر واپس آ گیا لیکن شام ہوئی تو میرے مالی سجاد نے مجھے گھیر لیا۔ پوچھنے لگا یہ بل جو موخر ہوا ہے، اس میں عوام کا فائدہ ہے یا نقصان، اب اس کو میں کیا بتاتا اس میں عوام کے فائدے کی کوئی بات دور دور تک موجود نہیں تھی، اس کا تعلق اشرافیہ کے مفادات اور اقتدار کے داؤ پیچ سے تھا۔
ہر باشعور پاکستانی سمجھتا ہے کہ اس وقت ملک مختلف بحرانوں کی زد میں ہے، سلامتی کے کئی مسائل بھی درپیش ہیں، سیاسی استحکام ناپید ہے اور اس کے لئے سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی جا رہیں ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوششیں اب احمقانہ حد کو بھی پار کر چکی ہیں اس سارے عمل میں فیصلہ کرنے والی قوتیں عوام کو بھول جاتی ہیں یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ عوام کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا،ان کے سامنے جو تصویر رکھی جائے گی وہ اسے قبول کر لیں گے۔ ایسا تو 80 اور 90 کی دہائی میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت کے حکمران بھی عوام سے ڈرتے تھے، حالانکہ ریاست کا ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا جو اپنی مرضی کی خبریں سناتا اور دکھاتا تھا۔ آج کروڑوں عوام کے پاس موبائل فون ہیں اور اطلاعات کا ایک نیا نظام وجود میں آ چکا ہے، اب یکطرفہ ٹریفک کیسے چلائی جا سکتی ہے عوام کی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے عوامی بھلائی کے کام کرنے پڑتے ہیں، ایسی پالیسیاں لانی پڑتی ہیں، جو انہیں یہ باور کرائیں کہ حکومت ان کے لئے دن رات کام کر رہی ہے، ایسی کسی بات سے لاتعلقی اختیار کر کے ایک طرف کو چل پڑنا اور شخصیات کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی حکمتِ عملی بنانا زمینی حقائق سے نابلد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ آج بی بی سی کہہ رہا ہے کہ حکومت نے چوری چھپے ترامیم کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی اگر ترامیم قوم اور ملک کے حق میں ہیں تو ان کے ڈرافٹ کو سامنے کیوں نہیں لایا گیا، حتیٰ کہ ملک کے وزیر قانون تک ان سے بے خبر تھے۔ کیا ایک متفقہ آئین کو اس طرح کے اقدامات سے متنازعہ بنانا قوم کے مفاد میں ہے،اس آئینی ترمیمی بل کو منظور کرانے کے لئے جس طرح دو چھٹیوں کے باوجود دن رات ہنگامہ خیزی کی گئی، کیا اسے دیکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ سب کچھ قومی مفاد کی وجہ سے کیا جا رہا تھا آخر اتنی ایمرجنسی کیا تھی جس نے پارلیمینٹ کے بھی سارے تاروپود ہلا دیئے ماضی میں ہم نے بہت کچھ دیکھا ہے مگر اس بار جو کچھ ہوا وہ بالکل انوکھا تھا، مولانا فضل الرحمن کو سب اس طرح پیر و مرشد مان کر در نیاز پر حاضریاں دے رہے تھے جیسے ان کی وجہ سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہونے جا رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق کی طرف دیکھیں تو آئین کی منظوری کے دوران ذوالفقار علی بھٹو بھی خود چل کر مولانا مفتی محمود کے پاس گئے تھے اور انہیں دلیل سے قائل کر کے واپس آئے تھے۔ موجودہ اتحادی حکومت کے پاس غالباً ایسی کوئی دلیل ہی نہیں تھی جو مولانا فضل الرحمن کو قائل کر سکتی۔
معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن اس وقت بھی کوشش یہی ہے آئینی موشگافیوں کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے، حالانکہ ایسے معاملہ آگے نہیں بڑھے البتہ انتشار ضرور بڑھ جائے گا۔ بار ایسوسی ایشن کا اس حوالے سے جو اجلاس ہوا ہے،وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آئین میں مجوزہ ترامیم کی گئیں تو ایک بڑی ہلچل مچے گی اور پھر شاید ملک میں جمہوریت کی بساط بھی خطرے سے دو چار ہو جائے۔ عوام حیران ہیں کہ پیپلزپارٹی جس کے بانی چیئرمین کو اس آئین کا خالق کہا جاتا ہے، آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے بے تاب نظر آتی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ ترامیم قومی مفاد میں ہیں، لیکن اس طرح چوری چھپے ان کی منظوری تو بڑے تنازعات کو جنم دے گی، اس آئینی بل کو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کر کے کم از کم ایک ہفتہ بحث کرائی جائے، تاکہ اس کی خوبیاں اور خامیاں عوام کے سامنے آ سکیں،اس کے بعد اس کی منظوری پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہو گا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے نئے بحرانوں کو جنم دینا کسی بھی طرح دانشمندانہ پالیسی نہیں کاش ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس کی سمجھ آ جائے اور وہ وقتی فائدے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں۔