موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ،ترقی یافتہ ممالک  کے تعاون سے نمٹنا ہو گا،عطاتارڑ 

موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ،ترقی یافتہ ممالک  کے تعاون سے نمٹنا ہو ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ظفر اقبال

 موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ،ترقی یافتہ ممالک کے تعاون سے نمٹنا ہو گا۔عطاتارڑ 

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑنے کہا ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے،ترقی یافتہ ممالک کے تعاون سے اِس کے ساتھ نمٹنا ہو گا”کیونکہ ہماری صورتحال تو یہ ہے کہ ہم خود کسی بھی مسئلے سے نہیں نمٹ سکتے اور ہر مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھتے ہیں کہ آخر اِن ممالک نے ترقی ہمارے نہیں تو کس کے لیے کی ہے اور اُنہوں نے اپنی ترقی کا فائدہ اگر ہمیں نہیں تو کس کو پہنچانا ہے اور ہم نے ترقی کرنے کی ضرورت اِس لیے محسوس نہیں کی کہ ترقی یافتہ ملک اِس پریشانی میں مبتلا نہ ہوں کہ اپنی ترقی کو کس کے لیے استعمال کریں اِس لیے ہم اور ترقی یافتہ ممالک لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں او ریہی دو ر اندیشی ہمارے کام آرہی ہے ورنہ ہم بھی ترقی کرچُکے ہوتے تو ترقی یافتہ ممالک بالکل ہی بے یار و مدد گا ر ہو جاتے اور کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہ ہوتا اِس لیے ترقی یافتہ ممالک کو ہمارا احسان مند ہونا چاہیے کہ اُنہیں اپنی مدد کر نے اور نیکیاں کمانے کا موقع دے رہے ہیں جو کہ بجائے خود ایک نیکی ہے اور اِس دو طرفہ نیکی پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

                                                       جمعیت العلمائے اسلام اپوزیشن کا حصہ ہے اور رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن

جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہا ہے کہ ”جمعیت اپوزیشن کا حصہ ہے اور رہے گی ”تاہم حکمران پارٹی نے کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ اور خیبر پختونخوا کی گورنر شب اور کئی دیگر عہدوں کی جو پیش کش کی ہے اُس پر ہم نے اپنی رضا مندی ظاہر نہیں کی اور غور کے لیے وقت مانگا ہے جبکہ غور صرف یہ کرنا ہے کہ ہم موجودہ صورتحال میں عوام کی خدمت زیادہ کر سکتے ہیں یا مزکورہ بالا عہدے حاصل کرنے کی صورت میں جبکہ ہم نے عوام سے بھی مشورہ مانگا ہے کیونکہ موجودہ صورت میں تو اُنہیں ہماری کال پر ریلیوں اور جلسوں میں آنا پڑتا ہے جہا ں و ہ سارا کام چھوڑ کر بھوکے پیاسے شرکت کرتے ہیں چاہے دُھوپ ہو یا بارش جبکہ کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شب کا ہمیں تجربہ بھی حاصل ہے اور شاید حکومت ہمارے اِس سنہری تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے اگرچہ یہ ہماری طبع کے خلاف تھا کیونکہ وہ بیرونی ممالک کے سیر سپاٹے ہی تک محدود تھی،اگر عوام نے اجازت دی تو ہم وہ صورتحال دوبارہ قبول کر لیں گے کیونکہ ہم عوام کی مرضی کے بغیر ایک قد م بھی نہیں چل سکتے آپ اگلے روز وفاقی وزیر محمد علی دُرانی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔

                                              مہنگائی پر قابو پانے کے لیے نیا محکمہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔عظمی بخاری 

وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے کہا ہے کہ ”ہم نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے نیا محکمہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ”تاکہ عوام ہماری بجائے اِن کے کان کھایا کریں کیونکہ وہ اپنی بک بک جھک جھک کر کے اقتدار کا سارا مزہ ہی کرکرا کر دیتے ہیں بلکہ ہم کوشش کریں گے کہ اِس محکمے میں کام کرنے والے سارے کے سارے آدمی بہرے ہوں اگرچہ عوام کی بکواس سُن کر خو د ہی بہرے ہو جائیں گے اور عوام تنگ آ کر اِن کے کان کھانا چھوڑ دیں گے اور صبر و شکر کر کے اپنے گھروں بیٹھ جائیں گے کیونکہ مہنگائی نے میں بہر صورت ایسے ہی رہنا ہے اور ہماری زندگی اجیرن کرتے جانا ہے اور جس کے بعد ہم اطمینان سے یہ محکمہ بند بھی کر سکیں گے جبکہ یہ کفایت شعاری کی طرف ہمارا پہلا قدم ہو گا اور جب تک کفایت شعاری سے کام لیا جائے گا ملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہوتی جائے گی جبکہ ہم اپنے اخراجات میں تو کمی کر نہیں سکتے اِس لیے یہی غنیمت ہے کہ ہم اپنے خرچہ میں اضافہ نہ ہونے دیں اگرچہ یہ بھی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے تاہم یہ قربانی دینے کی کوشش ضرور کریں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔

 

ہیرو کُتا 

ایک شخص گھر سے باہر نکلا تو اُس نے دیکھا کہ ایک جنازہ جا ر ہا ہے، اہلِ جنازہ قطار میں لگے ہوئے ہیں اور ساتھ ایک کُتاجا رہاہے جس کے گلے میں پھولوں کے ہار ہیں۔اُس نے اہلِ جنازہ میں سے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے تو اُسے بتایا گیا کہ جو آدمی سب سے آگے جا رہا ہے یہ اُسکی بیوی کا جنازہ ہے

 ”اوریہ کتا اور اُس کے گلے میں پھولوں کے ہار؟“اُس نے دوبارہ پوچھا تو اُسے جواب ملا،”اُس کی بیوی اسی کتے کے کاٹنے سے مری تھی“

”کیا یہ کتا کچھ دیر کے لیے مجھے مل سکتا ہے؟“اُس نے پوچھا۔

”کیوں نہیں“وہ بولا،”لیکن قطارمیں لگے سب لوگ اسی کُتے کے اُمیدوار ہیں،اِن سے فارغ ہُوا تو تم بھی لے جان

 

    اور اب آخر میں رخشندہ نوید کی یہ غزل 

 

خوف کا شہر ہے اور شہر بد ر ہوتے ہی 

مار ڈالوں نہ کسی کو میں نڈر ہوتے ہی

کھل کے جینے میں یہی خوف خلل ڈالتا ہے 

ایک رات اور ہے یہ رات بسر ہوتے ہی 

اِن پرندوں کا کوئی اور بھی ہوتا ہے پیام 

جاگ تو جاتی ہوں ہر روز سحر ہوتے ہی 

میرے اندر سے کوئی جُھوم کے نکلاباہر 

تیرے اِس شہر کے آنے کی خبر ہوتے ہی 

میں بھی دانوں سے بھری تھالی اُٹھائے نکلی 

شور سے بھرگیا دالان سحر ہوتے ہی 

کونپلیں کر نہ دیں انکار جواں ہونے سے 

کاٹ کر پھینک نہ دے کوئی شجر ہوتے ہی 

آج کا مطلع 

آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں،ظفر

کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف 

 

 

 

 

 

مزید :

رائے -کالم -