نام ہی کافی ہے
پاکستان کی تاریخ میں 2013ءکے الیکشن شائد واحد ایسے الیکشن ہیں،جن میں امیدواروں کے لئے اپنی اپنی الیکشن مہم چلانے کے لئے بہت ہی کم وقت دیا گیا ہے،تاہم جن جن سیاسی پارٹیوں نے سال چھ مہینے پہلے سے اپنے کیمپوں میں اس کی منصوبہ بندی کررکھی تھی، وہ اب ان کے کام آ رہی ہے ،جبکہ نئی سیاسی پارٹیوں یا نسبتاً کم تجربہ کی حامل سیاسی پارٹیوں کی ”سانسیں“ پھولی پھولی سی لگتی ہیں۔ووٹروں کی کم یادداشت کے پیش نظر اب الیکشن مہم چلانے والی پارٹیوں نے اپنے خاص خاص کارنامے ”ازبر“ کئے ہوئے ہیں اور وہ ٹھیک اسی طرح ووٹروں کو یہ کارنامے یاد کرا رہے ہیں،جس طرح کبھی آٹھویں کلاس میں ہمارا ماسٹر اللہ ڈیوایا ہم سے سومنات پر محمود غزنوی کے حملوں کی تفصیل پوچھتا تھا تو ہم فوراً ”رٹی رٹائی“ زبان میں فر فر ان 17حملوں کی بابت بتایا کرتے تھے۔گزشتہ روز ایک ٹیلی ویژن چینل پر ہمیں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ، بلکہ اب سابق ڈپٹی وزیراعظم چودھری پرویز الٰ ہی دکھائی دیئے تو وہ اپنی حکومت کے 2002ءسے 2007ءتک کے ایسے ایسے ترقیاتی کاموں کی یاد پنجاب کے ووٹروں کو یاد کرا رہے تھے کہ جن کا شمار ہر آنے والی حکومت کے لئے ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ہوگا۔صرف سڑکوں کا ہی میدان لے لیں تو 50برس کے دوران پنجاب میں 35 ہزار میل سڑکیں بنیں، جبکہ ان کے 5برس میں 37ہزار میل نئی سڑکیں بنائی گئیں۔یہ شائد اس کا نتیجہ ہے کہ سبزی منڈی ،فروٹ منڈ ی اور غلہ منڈی کے جو آڑھتی کبھی اجناس، سبزی اور فروٹ خرید کرنے کھیتوں میں نہیں گئے تھے۔آج منڈیوں سے دیہات اور کھیتوں کے ٹھیک اندر تک ہزارہا سڑکیں بننے کی بدولت اب مجبوراً خود کسانوں تک پہنچتے ہیں، انہیں آلو خریدنے ہوں یا گندم، چاول خریدنا ہوں یا آم، اب کسان اپنا مال لے کر ان کے پاس جانے پر مجبور نہیں، بلکہ آڑھتی خود وہاں مال خریدنے پہنچ جاتے ہیں اور اس سے قبل کہ کوئی اور یہ مال لے جائے،ہر آڑھتی ایک دوسرے سے پہلے دیہات اور کھیتوں یاباغات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ویسے تو چودھری پرویز الٰ ہی کا خاندان قیام پاکستان سے قبل یعنی 72-70برس سے ٹیکسٹائل کی صنعت سے جڑا ہوا ہے اور ڈسٹرکٹ بورڈ گجرات کی سیاست ہو یا صوبے اور ملک کی چودھری ظہور الٰ ہی شہیدساٹھ کی دہائی سے قبل ہی اس میدان میں تھے۔1970ءکے الیکشن میں جب بیرسٹر بھٹو کی روٹی، کپڑا، مکان کی آواز پر پورا مغربی پاکستان ان کے پیچھے لگ گیا تھا ، اس وقت بھی چودھری ظہور الٰ ہی گجرات سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے اور انہوں نے پی پی پی کے امیدوار کو پچھاڑ دیا تھا اور بطور اپوزیشن لیڈر ان کی آواز پارلیمنٹ میں گونجتی رہی تھی۔یہ وہی زمانہ تھا،جب ان پر ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمات بنائے گئے اور جب انہیں بلوچستان کی جیل میں بھیجا گیا تھا اور جب بلوچستان کے لیڈروں مینگل، بزنجو اور شیر محمد مری کے خلاف بھی غداری کے مقدمات بنائے گئے تھے اور جمہوریت کے اس چیمپئن (بھٹو) نے چودھری ظہورالٰ ہی کو جیل میں ہی مروانے کی کوشش کی تھی۔پرویز الٰ ہی اب اپنے اس آبائی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں،جہاں سے چودھری ظہورالٰ ہی ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے۔ویسے بھی 1970ءکے گجرات اور آج کے گجرات میں بہت فرق ہے، اب تو ماشاءاللہ وہاں پرویز الٰ ہی کی کوششوں سے بین الاقوامی سطح کی گجرات یونیورسٹی بھی علاقہ کے ہزاروں طلباءو طالبات کو اپنے پروں میں لئے ہوئے ہے اور وہ ہزاروں خاندان جو اپنے بچوں کو لاہور اور دیگر دور دراز شہروں کی یونیورسٹیوں میں بھیجنے پر مجبور تھے، اب بچوں کی تعلیم اور رہائش وغیرہ کے لئے فکر مند ہونے کی بجائے چین اور اطمینان کی نیند سوتے ہیں۔یہ تو خیر ان کے آبائی حلقہ کا ذکر تھا۔پنجاب کے حوالے سے اہل پنجاب کے ووٹروں کو جو خاص باتیں چودھری پرویز الٰ ہی یاد کرا رہے تھے، ان میں میٹرک تک تعلیم مفت کرنے اور طالبات کے لئے خصوصاً میٹرک کی تعلیم کے لئے ماہانہ دوسو روپے فی طالبہ نقد شروع کرنے کا منصوبہ ہے، جس کا فائدہ 64ہزار سکولوں کے لاکھوں طلباءو طالبات نے اٹھایا، بلکہ سکولوں کی عمارتیں بنانے اور انہیں فرنیچر مہیا کرانے کے سلسلے میں ریکارڈ کام کرایا گیا۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو فیکٹریوں یا دکانوں پر کام کرانے کو جرم قرار دیا گیا اور ننھے بھکاریوں کو بھی پکڑ کر ”چائلڈ کیئر سنٹروں“ میں بھیجا گیا، تاکہ وہ وہاں ہوسٹلوں میں رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔عموماً یہ بچے وہ تھے جو افغانستان کی جنگ میں اپنے والدین کھو چکے تھے اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔صحت کے میدان میں بھی پنجاب حکومت نے 2002ءسے 2007ءکے درمیان جہاں صرف دس روپے کی پرچی پر تمام ادویات اور سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ مفت فراہم کرنا یقینی بنا دیا تھا، وہاں آپریشن تک مفت کئے جاتے تھے اور یہ ایک ایسی کایا پلٹ تھی، جس کی مثال نہ اس سے قبل ملتی ہے اور نہ ہی بعد میں۔جنوبی پنجاب کے سرائیکی گڑھ ملتان میں دل کا ایک نیا ہسپتال قائم کیا گیا اور جہاں پورے پنجاب میں صرف ڈینٹل ہسپتال لاہور میں موجود تھا، وہاں نیا دانتوں کی بیماریوں کا بھی جدید مشینری سے لیس ہسپتال بنایا گیا۔وہیں ملتان میں ہی بچوں کا ایک الگ ہسپتال قائم کیا گیا اور بہاولپور میں پہلی بار پورے شہر کو سیوریج کا ایک مربوط نظام دیا گیا۔اس سارے سسٹم کو چھوڑیں، 1122کی جو ہنگامی سروس لاہور میں شروع کی گئی تھی اور جہاں سے آپ 1122 پر مفت فون کرکے ایمرجنسی میں مفت گاڑی منگوا کر ہسپتال پہنچ سکتے ہیں یا اپنے عزیز یا بچوں ،والدین وغیرہ کو ہسپتال تک پہنچا سکتے ہیں۔اس کا دائرہ کار مزید شہروں تک بھی بڑھایا گیا۔یہ سسٹم تو ایسا ہے کہ خود ورلڈبینک کے نمائندوں نے ساری دنیا میں اس کو سراہا ہے۔
اس کی شروعات 2002ئ....2007ءکے دوران ہوئی ، بلکہ میں توکہوں گا کہ اس منصوبہ کو ہی چودھری پرویزالٰ ہی کے الیکشنوں کی پبلسٹی مہم میں ان کی تصویر کے ساتھ صرف ایک چھوٹے سے اشتہار میں ہی دکھا دیا جائے اور ساتھ لکھ دیا جائے کہ ” نام ہی کافی ہے“ تو پیغام ووٹروں تک پہنچ جائے گا۔پھر کسی کو مزید اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں جانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔نہ تو آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ جب 2007ءمیں چودھری پرویز الٰ ہی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا چارج چھوڑا تو پنجاب کے خزانہ میں 100ارب روپیہ فالتو(سرپلس) تھا،جبکہ میاں شہباز شریف نے 2013ءمیں وزارتِ اعلیٰ کا چارج چھوڑا تو صوبہ پنجاب 500ارب روپے کا مقروض ہے۔حد تو یہ ہے کہ 70ارب یا بعض کے بقول30 ارب روپیہ میٹرو بس سکیم(جسے چودھری پرویز الٰ ہی جنگلہ بس سروس کا نام دیتے ہیں اور جو ان کے انڈر گراﺅنڈ ریل کے منصوبہ کو ختم کرکے شروع کرائی گئی)میں لگایا گیا ہے، اس کا فائدہ پورے صوبہ کو نہیں، بلکہ صرف لاہور کو ہے اور خزانہ پر یہ سکیم ہر سال ایک ارب روپے کا مسلسل بوجھ بھی ڈالتی رہے گی،یعنی یہ ایک ایسا کینسر کا پھوڑا ہے، جو پنجاب حکومت کے خزانہ کو ایک ”جونک“ کی طرح ہر آنے والے وقت میں چمٹا رہے گا اور عوام یعنی اہلِ پنجاب کا خون چوستا رہے گا۔
حد تو یہ ہے کہ یہاں پر میاں شہبازشریف نے سستی روٹی سکیم شروع کی اور سرکاری تندور بنائے تو آٹا ایسا مہنگا ہوا کہ اب 40روپے کلو تک جا پہنچا ہے ۔اربوں روپے ان سکیموں پر خرچ کردیئے گئے اور بیورو کریٹس نے کھل کر شہبازشریف سے اس کھردرے سلوک کا بدلہ لیا، جو انہوں نے 1997ءسے 1999ءکے درمیان ان کے ساتھ روا رکھا تھا۔ویسے تو چودھری پرویز الٰ ہی نے اپنے اس طویل انٹرویو میں کافی باتیں کیں اور قدرے کھل کر اپنی بھی پوزیشن واضح کی، لیکن سب سے دکھ بھری بات یہ تھی کہ ان کے دور میں غیر ممالک سے 900ارب کی سرمایہ کاری صرف پنجاب میں آئی، جبکہ میاں شہبازشریف کے دور میں ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس قدرتنگ کیا گیا کہ اب یہاں پر آنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ دار اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔رہا یہ اعتراض کہ شہبازشریف کی حکومت نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے تو ظاہر ہے کہ بلدیاتی اداروں کا کنٹرول بیورو کریسی، کیونکر میاں شہباز کے حوالے کرتی، لہٰذا انہوں نے میاں صاحبان کو ان اداروں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا اور جس طرح غریب شہری اور پنجاب کے عوام ذلیل اور پریشان ہوئے، وہ مسلسل اس کے لئے ان ذمہ داروں کو کوستے رہے، جنہوں نے ان سے ان کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام چھین لیا تھا۔ انتخابات کا وقت آ گیا ہے،ظاہر ہے کہ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آئے گا،جس نے جو بویا وہی کاٹے گا،بہرحال چودھری پرویز الٰ ہی کا ” نام ہی کافی ہے“۔ہوسکے تو اگلے کسی ٹی وی انٹرویو میں وہ پنجاب کے عوام کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ صوبہ پنجاب کو 500ارب کا مقروض بنائے والوں سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ 500ارب کا گھاٹا تو رہا، ایک طرف ان کی بعض سکیموں سے تو سودوسو کروڑ مزید ہر سال اہل پنجاب کو مزید ادا کرنا ہوگا۔اس کا کیاہوگا۔ممکن ہوتو کم از کم چند حروف پر مشتمل ایک ہینڈ بل ہی کروڑوں کی تعداد میں تقسیم کرا دیں یا سٹکر پر گھر کے دروازہ اور ہر شخص تک پہنچا دیں، جس پر صرف یہ ایک مختصر فقرہ تحریر ہو کہ پنجاب کو 500ارب کا مقروض بنانے والو۔اس صوبہ پررحم کرو اور خدا کے لئے اب اس کا پیچھا چھوڑ دو۔کوئی نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔لوگ خود سمجھ جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسے لوگوں سے اپنی جان چھڑا لیں۔ ٭