جنرل (ر) پرویز مشرف کی ضمانت کی منسوخی کے بعد ؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز نظر بندی کیس میں سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی عبوری ضمانت خارج کرتے ہوئے، ان کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا ہے۔ اعلی پولیس حکام اور بھاری پولیس نفری کی موجودگی میں پرویز مشرف رینجرز کے حصار میں موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ججوں کو فرائض سے روکنا اور انہیں نظر بند کرنے کا اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس وقت اس اقدام سے نہ صرف اٹھارہ کروڑ عوام متاثر ہوئے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ فاضل عدالت نے اپنے حکم میں ججز نظر بندی کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد پرویز مشرف کے وکلا ءنے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ درخواست عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے دائر نہیں ہوسکی۔ جمعرات کو رات گئے انہیں گرفتار کرکے ان کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ جمعہ کو وہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے۔مختلف سیاسی رہنماﺅں نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست ضمانت خارج ہونے اور گرفتاری کے حکم کو مکافات عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئیے ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ گرفتاری کے حوالے سے عدلیہ کا حکم حتمی ہے جب اس ملک میں عدلیہ کے حکم سے وزیر اعظم گھر جاچکا ہے تو پھر پرویز مشرف کون ہے جو عدالتی احکامات نہ مانے؟ پرویز مشرف کو اپنے آپ کو خود احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئیے ۔ انہوں نے کہا کہ بارہ اکتوبر کے غیر آئینی اقدامات پر صرف پرویز مشرف نہیں ان کا ساتھ دینے والے سب ساتھیوں کا بھی احتساب ہونا چاہئیے ۔ کارگل پر بھی کمیشن بننا چاہئیے تاکہ ذمہ دار لوگ انصاف کے کٹہرے میں آئیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید ، خواجہ سعد رفیق، تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے سابق صدر کی عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے کے بعد عدم گرفتاری پر شدید احتجاج کیا اور کہاہے کہ سیاسی رہنماﺅں کو جیلوںمیں بھیجا جاتا رہا ہے لیکن پرویز مشرف کی گرفتاری کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ پرویز رشید نے کہا کہ مفرور ملزم کا مقام چک شہزاد کا محل نہیں اڈیالہ جیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی مزاحمت کی وجہ سے آصف زرداری مشرف کو پارلیمنٹ سے استثنا نہیں دلا سکے ۔ مشرف اب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اس کے سابق ادارے کو اب اس کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئیے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت عالیہ کے حکم کے بعد اب مشرف مفرور ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لئے وزارت داخلہ یا کسی اور کے احکامات کی ضرورت نہیں۔ان کی سیکورٹی پر مامور یا کوئی بھی اہلکار انہیں گرفتار کرسکتا ہے اور تھانہ سیکرٹریٹ پولیس بھی انہیں گرفتار کرسکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل( ر) عبدالقیوم نے کہا کہ آئین سے بڑا کوئی نہیں جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں گرفتاری دے دینی چاہئیے تھی۔ جنرل پرویز مشرف کی عبوری ضمانت ختم ہونے اور ان کے عدالت سے فرار کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا نے شائع اور نشر کی ہیں ، جہاں تجزیہ نگاروں نے ان کی گرفتاری کو آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ایک اہم پیش رفت قرار دیا وہاں ان کے عدالت سے اس طرح فرار پر بھی تعجب کا اظہارکیا گیاہے ۔ ججز نظر بندی ، یا آئین توڑ کر ملک میں مارشل لاءلگانے یا ایمرجنسی پلس نافذ کرنے جیسے سنگین الزامات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلتا ہے تو اس میں انہیں جو سزائیں ہو سکتی ہیں ان سے بھی پرویز مشرف آگاہ ہیں۔ ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے جیل جانے کے بجائے عدالت سے فرار ہو کر اپنے پر تعیش گھر میں پہنچ جانے پر تنقید کی جارہی ہے اور اس حرکت کو ان کے ساتھ امتیازی سلوک گردانا جارہا ہے، بعض حلقے تو ان کے سابقہ ادارے کے بعض لوگوں کی طرف سے ان پر ہاتھ رکھنے کے بے بنیاد شبہات میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا اور جمہوری ملکوں میں اسے پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش میں جمہوریت کے استحکام کی طرف ایک فیصلہ کن اقدام کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہماری جمہوریت کی خامیاں ہم سے زیادہ مہذب دنیا کے ماہرین پر واضح ہیں ۔ ہماری حقیقی جمہوریت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی عالمی اداروں کو ہم سے بڑھ کر احساس ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے سفر پر نظر رکھنے والے ماہرین اور ادارے اس طرح کے ہر اہم معاملے کو قریب سے اور گہری دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ اس معاملے میں پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں ۔ حکومت ، انتظامیہ اور اداروں کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئیے ۔ آزاد عدلیہ او ر جمہوریت کے پانچ سال پورے کرنے کے لئے ہم دنیا میں جو عزت حاصل کرپائے ہیں ، پرویز مشرف کی طرف سے کئے جانے والے ایسے کھیل تماشوں کی وجہ سے اب ہمارا مذاق نہیں اڑنا چاہئیے۔ ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے سادہ دل حامیوں کے نزدیک ان کا یہ اقدام ایک شیر دلیر انسان والا اقدام ہو۔ یا ان کا مقصد اس حرکت کے ذریعے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہو۔ لیکن اگر پرویز مشرف نے اب تک عوام کے اپنے متعلق احساسات کا کچھ بھی اندازہ کیا ہے، اگر عالمی رائے عامہ کے آمریت او ر جمہوریت کے متعلق رویوں کا انہیں کچھ علم ہے تو پھر انہیں اور ان کے حامیوں کو یہ جاننے میں کوئی دشواری پیشں نہیں آنی چاہئے کہ اس طرح کے فرار سے وہ اپنے لئے تمسخر اور تضحیک کے سواکچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ وہ سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ اگر کسی طرف سے کوئی وعدے کئے گئے تھے تو وہ جھوٹے تھے ۔ عوام میں ان کی شخصی مقبولیت کے جو نقشے ان کے سامنے رکھے گئے تھے وہ محض موقع پرست اور خوشامدی لوگوں کی چکمے بازیاں تھیں۔ مغرب میں اپنے لیکچرز کے بعد انہیں جس تحسین یا تعریف سے نوازا جاتا رہا وہ ان کے علم اور زیرکی کا اعتراف نہیں بلکہ محض مروت اور اخلاقیات کے تقاضوں کے پیش نظر تھا۔ ان حقائق کو پہچان لینے ہی میں ان کا بھلا ہے۔اگر پرویز مشرف اس خیال سے پاکستان آئے ہیں کہ ان پر جو جھوٹے الزامات ان کی عدم موجودگی میں پاکستانی میڈیا میں اچھالے جاتے رہے جن کا انہیں جواب دینا ہے ۔ اگر ان کا خیال یہ رہا ہے کہ وہ عدالت میں جا کر اپنی صفائی میں ٹھوس حقائق اور دلائل عدالت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، بعض اصل مجرموں کو بے نقاب کرسکتے ہیں تو ان کے ایسے احساسات اور جذبات کے اظہار کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے متعلق ایک خیال یہ بھی مو جود ہے کہ وہ اپنی ذاتی صفائی کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ عدالت میں گھسیٹنے، بہت سے لوگوں کو بے نقاب کرنے اور اپنے ذاتی فیصلوں اور ضد کو ادارے کے فیصلے بنانے کی کوشش کریں گے۔ یا بعض ایسے حقائق سامنے لانے کی کوشش کریں گے جن سے بگڑے ہوئے ملکی حالات میں اور زیادہ بگاڑ اور افراتفری پھیلنے کا امکان ہو۔ یہ بھی محض لوگوں کے خیالات ہیں ورنہ ہماری عدلیہ اسوقت آزاد اور ہر طرح کے دباﺅ سے پاک فضا میں کام کرنے اور تمام تر قومی مفادات کی پاسداری کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔غیر اہم مباحث اور طوالت کو قابو میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک شخص پر قومی سطح کے جو سنگیں الزامات عائد ہیںان کا جواب اور جواز پیش کرنے کے لئے یقینا اسے وقت ملے گا اور عدالتی کارروائی کے دوران اس کا موقف بھی پوری طرح قو م اور دنیا کے سامنے چلا جائے گا۔اس وقت پرویز مشرف کی طرف سے اگر کسی طر ح کی توقع کی جاسکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ وہ عدالت میں وکلاءکے ذریعے اپنا موقف اس طرح پیش کریں کہ قانون اور آئین کی زد سے جس حد تک بھی بچ سکتے ہوں بچیں اور اپنے متعلق عمومی طور پر غم و غصے سے بھری ہوئی قوم پر بھی واضح کریں کہ وہ اتنے بھی برے نہیں ہیں جتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز نظر بندی کیس میں سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی عبوری ضمانت خارج کرتے ہوئے، ان کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا ہے۔ اعلی پولیس حکام اور بھاری پولیس نفری کی موجودگی میں پرویز مشرف رینجرز کے حصار میں موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ججوں کو فرائض سے روکنا اور انہیں نظر بند کرنے کا اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس وقت اس اقدام سے نہ صرف اٹھارہ کروڑ عوام متاثر ہوئے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ فاضل عدالت نے اپنے حکم میں ججز نظر بندی کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد پرویز مشرف کے وکلا ءنے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ درخواست عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے دائر نہیں ہوسکی۔ جمعرات کو رات گئے انہیں گرفتار کرکے ان کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ جمعہ کو وہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے۔مختلف سیاسی رہنماﺅں نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست ضمانت خارج ہونے اور گرفتاری کے حکم کو مکافات عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئیے ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ گرفتاری کے حوالے سے عدلیہ کا حکم حتمی ہے جب اس ملک میں عدلیہ کے حکم سے وزیر اعظم گھر جاچکا ہے تو پھر پرویز مشرف کون ہے جو عدالتی احکامات نہ مانے؟ پرویز مشرف کو اپنے آپ کو خود احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئیے ۔ انہوں نے کہا کہ بارہ اکتوبر کے غیر آئینی اقدامات پر صرف پرویز مشرف نہیں ان کا ساتھ دینے والے سب ساتھیوں کا بھی احتساب ہونا چاہئیے ۔ کارگل پر بھی کمیشن بننا چاہئیے تاکہ ذمہ دار لوگ انصاف کے کٹہرے میں آئیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید ، خواجہ سعد رفیق، تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے سابق صدر کی عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے کے بعد عدم گرفتاری پر شدید احتجاج کیا اور کہاہے کہ سیاسی رہنماﺅں کو جیلوںمیں بھیجا جاتا رہا ہے لیکن پرویز مشرف کی گرفتاری کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ پرویز رشید نے کہا کہ مفرور ملزم کا مقام چک شہزاد کا محل نہیں اڈیالہ جیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی مزاحمت کی وجہ سے آصف زرداری مشرف کو پارلیمنٹ سے استثنا نہیں دلا سکے ۔ مشرف اب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اس کے سابق ادارے کو اب اس کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئیے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت عالیہ کے حکم کے بعد اب مشرف مفرور ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لئے وزارت داخلہ یا کسی اور کے احکامات کی ضرورت نہیں۔ان کی سیکورٹی پر مامور یا کوئی بھی اہلکار انہیں گرفتار کرسکتا ہے اور تھانہ سیکرٹریٹ پولیس بھی انہیں گرفتار کرسکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل( ر) عبدالقیوم نے کہا کہ آئین سے بڑا کوئی نہیں جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں گرفتاری دے دینی چاہئیے تھی۔ جنرل پرویز مشرف کی عبوری ضمانت ختم ہونے اور ان کے عدالت سے فرار کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا نے شائع اور نشر کی ہیں ، جہاں تجزیہ نگاروں نے ان کی گرفتاری کو آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ایک اہم پیش رفت قرار دیا وہاں ان کے عدالت سے اس طرح فرار پر بھی تعجب کا اظہارکیا گیاہے ۔ ججز نظر بندی ، یا آئین توڑ کر ملک میں مارشل لاءلگانے یا ایمرجنسی پلس نافذ کرنے جیسے سنگین الزامات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلتا ہے تو اس میں انہیں جو سزائیں ہو سکتی ہیں ان سے بھی پرویز مشرف آگاہ ہیں۔ ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے جیل جانے کے بجائے عدالت سے فرار ہو کر اپنے پر تعیش گھر میں پہنچ جانے پر تنقید کی جارہی ہے اور اس حرکت کو ان کے ساتھ امتیازی سلوک گردانا جارہا ہے، بعض حلقے تو ان کے سابقہ ادارے کے بعض لوگوں کی طرف سے ان پر ہاتھ رکھنے کے بے بنیاد شبہات میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا اور جمہوری ملکوں میں اسے پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش میں جمہوریت کے استحکام کی طرف ایک فیصلہ کن اقدام کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہماری جمہوریت کی خامیاں ہم سے زیادہ مہذب دنیا کے ماہرین پر واضح ہیں ۔ ہماری حقیقی جمہوریت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی عالمی اداروں کو ہم سے بڑھ کر احساس ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے سفر پر نظر رکھنے والے ماہرین اور ادارے اس طرح کے ہر اہم معاملے کو قریب سے اور گہری دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ اس معاملے میں پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں ۔ حکومت ، انتظامیہ اور اداروں کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئیے ۔ آزاد عدلیہ او ر جمہوریت کے پانچ سال پورے کرنے کے لئے ہم دنیا میں جو عزت حاصل کرپائے ہیں ، پرویز مشرف کی طرف سے کئے جانے والے ایسے کھیل تماشوں کی وجہ سے اب ہمارا مذاق نہیں اڑنا چاہئیے۔ ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے سادہ دل حامیوں کے نزدیک ان کا یہ اقدام ایک شیر دلیر انسان والا اقدام ہو۔ یا ان کا مقصد اس حرکت کے ذریعے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہو۔ لیکن اگر پرویز مشرف نے اب تک عوام کے اپنے متعلق احساسات کا کچھ بھی اندازہ کیا ہے، اگر عالمی رائے عامہ کے آمریت او ر جمہوریت کے متعلق رویوں کا انہیں کچھ علم ہے تو پھر انہیں اور ان کے حامیوں کو یہ جاننے میں کوئی دشواری پیشں نہیں آنی چاہئے کہ اس طرح کے فرار سے وہ اپنے لئے تمسخر اور تضحیک کے سواکچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ وہ سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ اگر کسی طرف سے کوئی وعدے کئے گئے تھے تو وہ جھوٹے تھے ۔ عوام میں ان کی شخصی مقبولیت کے جو نقشے ان کے سامنے رکھے گئے تھے وہ محض موقع پرست اور خوشامدی لوگوں کی چکمے بازیاں تھیں۔ مغرب میں اپنے لیکچرز کے بعد انہیں جس تحسین یا تعریف سے نوازا جاتا رہا وہ ان کے علم اور زیرکی کا اعتراف نہیں بلکہ محض مروت اور اخلاقیات کے تقاضوں کے پیش نظر تھا۔ ان حقائق کو پہچان لینے ہی میں ان کا بھلا ہے۔اگر پرویز مشرف اس خیال سے پاکستان آئے ہیں کہ ان پر جو جھوٹے الزامات ان کی عدم موجودگی میں پاکستانی میڈیا میں اچھالے جاتے رہے جن کا انہیں جواب دینا ہے ۔ اگر ان کا خیال یہ رہا ہے کہ وہ عدالت میں جا کر اپنی صفائی میں ٹھوس حقائق اور دلائل عدالت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، بعض اصل مجرموں کو بے نقاب کرسکتے ہیں تو ان کے ایسے احساسات اور جذبات کے اظہار کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے متعلق ایک خیال یہ بھی مو جود ہے کہ وہ اپنی ذاتی صفائی کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ عدالت میں گھسیٹنے، بہت سے لوگوں کو بے نقاب کرنے اور اپنے ذاتی فیصلوں اور ضد کو ادارے کے فیصلے بنانے کی کوشش کریں گے۔ یا بعض ایسے حقائق سامنے لانے کی کوشش کریں گے جن سے بگڑے ہوئے ملکی حالات میں اور زیادہ بگاڑ اور افراتفری پھیلنے کا امکان ہو۔ یہ بھی محض لوگوں کے خیالات ہیں ورنہ ہماری عدلیہ اسوقت آزاد اور ہر طرح کے دباﺅ سے پاک فضا میں کام کرنے اور تمام تر قومی مفادات کی پاسداری کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔غیر اہم مباحث اور طوالت کو قابو میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک شخص پر قومی سطح کے جو سنگیں الزامات عائد ہیںان کا جواب اور جواز پیش کرنے کے لئے یقینا اسے وقت ملے گا اور عدالتی کارروائی کے دوران اس کا موقف بھی پوری طرح قو م اور دنیا کے سامنے چلا جائے گا۔اس وقت پرویز مشرف کی طرف سے اگر کسی طر ح کی توقع کی جاسکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ وہ عدالت میں وکلاءکے ذریعے اپنا موقف اس طرح پیش کریں کہ قانون اور آئین کی زد سے جس حد تک بھی بچ سکتے ہوں بچیں اور اپنے متعلق عمومی طور پر غم و غصے سے بھری ہوئی قوم پر بھی واضح کریں کہ وہ اتنے بھی برے نہیں ہیں جتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔