پرویز مشرف کی مجسٹریٹ کے سامنے پیشی دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
اسلام آباد (آئی این پی) جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد کی عدالت نے گزشتہ روز سابق صدر پرویز مشرف کا دو روزہ ریمانڈ دے دیا جس کے بعد انہیں کل اتوار کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جمعہ کے روز عدالتی کارروائی کے بعد سابق صدر کو پولیس ہیڈ کوارٹرز منتقل کردیا گیا، جہاں انہیں ریسٹ ہاﺅس میں رکھا گیا ہے۔ پرویز مشرف کی گرفتاری پولیس اور ان کے وکلاءکے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ جمعہ کو پولیس نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ محمد عباس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو دو روزہ عبوری ریمانڈ پر دے دیا۔ پرویز مشرف کو ریمانڈ ختم ہونے کے بعد ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی۔ پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 6 بھی شامل کرلی گئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ پرویز مشرف کی گرفتاری پولیس اور ان کے وکلاءکے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سخت حفاظتی انتظامات میں جوڈیشل مجسٹریٹ محمد عباس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پروکلاءنے سابق صدر کے خلاف نعرے بازی کی۔ پرویز مشرف کے وکیل نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے استدعا کی ہے کہ سابق صدر کی سیکیورٹی بہت اہم ہے ان کی جان کو خطرہ ہے، انہیں جوڈیشل کیا جائے۔ مجسٹریٹ نے جوڈیشل ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ پرویز مشرف نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر فیصلے کا انتظار کیا تاہم وہ کچھ دیر بعد اپنی رہائش گاہ روزانہ ہوگئے۔ چیف کمشنر کو لکھے گئے پولیس کے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ مشرف کی جان کو خطرہ ہے، گھر کو سب جیل قرار دیا جائے۔ ایف آئی آر کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ءکو غیر قانونی، غیر اخلاقی پی سی او کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 60 ججوں کو معزول کرکے انہیں گھروں میں نظر بند کردیا اور انہیں ساڑھے پانچ ماہ تک حبس بے جا میں رکھا گیا۔ لہٰذا پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی۔ بعدازاں عدالت میں پیش نہ ہونے پر سول جج اسلام آباد میں عباس شاہ نے 18 دسمبر 2012ءکو پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔ این این آئی کے مطابق سرکاری وکیل نے کہاکہ مقدمے میں ملزم سے کوئی اسلحہ وغیرہ برآمد تو نہیں کروانا اس لیے ان کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں اور پرویز مشرف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔مقدمے کے مدعی اسلم گھمن کے وکلا ءنے کہاکہ پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور ان کے اہلخانہ کو گھروں میں نظر بند کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس شخص نے ملک کا آئین توڑا ہو اس کو کیسے اتنی آسانی سے جیل بھیجا جاسکتا ہے؟مدعی مقدمہ کے وکیل نے بتایا کہ عدالت پرویز مشرف کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک کرے جس طرح عام ملزمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جب عدالت کو بتایا گیا کہ کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ کا بھی اضافہ کردیاگیا ہے تو جج نے کہاکہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ کا اضافہ ہونے کے بعد یہ مقدمہ ان کے دائرہ سماعت میں نہیں اس لیے ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔مختصر سماعت کے بعد عدالت نے تحریری حکم میں پرویز مشرف کا دو روزہ راہداری ریمانڈ دینے کا فیصلہ سنایا۔عدالتی حکم میں کہا گیا کہ پولیس کی طرف سے پرویز مشرف کی گرفتاری 18 اپریل کو ظاہر کی گئی اور ان کا14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ مانگا گیاجوڈیشل مجسٹریٹ نے اپنے تحریری حکم میں کہا کہ پولیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرے اور عدالتی حکم پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 شامل کر کے رپورٹ دی جائے‘ پرویز مشرف کو اب21 اپریل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائےگا۔سب ڈویژنل پولیس افسر ادریس راٹھور نے بتایا کہ ملزم پرویز مشرف کی باقاعدہ گرفتاری ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمات میں اشتہاری ہیں۔ ثناءنیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پرویز مشرف کے عدالت سے فرار کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دے دیا عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ آئی جی اسلام آباد بنیامین خان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے جلد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں پانچ صفحات پر مشتمل حکم نامہ میں جسٹس شوکت صدیقی نے معطل سب انسپکٹر اور انسپکٹر کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے عدالت نے مشرف فرار کیس کی مزید سماعت 23اپریل تک ملتوی کر دی۔جسٹس شوکت عزےز صدےقی نے پروےز مشرف کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے فرار کےس کی سماعت کی آئی جی اسلام آباد بنےامےن خان پےش ہوئے جسٹس شوکت عزےز صدےقی نے آئی جی سے استفسار کےا کہ بتائےں کہ پولےس کی بھاری نفری تعےنات ہونے کے باوجود کس طرح اےک شخص اپنے ساتھےوں کے ساتھ فرار ہوگیا۔ شوکت صدےقی کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد کو خود عدالت مےں موجود ہونا چاہےے تھا کےونکہ ےہ اےک بےن الاقوامی نوعےت کا کےس تھا اس پر آئی جی اسلام آباد بنےامےن کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ روز جوڈےشل کانفرنس کی وجہ سے سپرےم کورٹ مےں تھے اس لےے نہےں آ سکے اس پر جسٹس شوکت صدےقی نے آئی جی سے پوچھا کہ آپ نے اس مقدمہ کی تفتےش کے لےے کس کو مقرر کےا ہے اور کس کو مارک کےا ہے، آئی جی کا کہنا تھا کہ اےک اےس اےچ او نے اےک سب انسپکٹر کو پروےز مشرف کی اےف آئی آر کی تفتےش کے لےے مارک کےا تھا اس پر شوکت صدےقی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب انسپکٹر اور اےس اےچ او کو قربانی کا بکرا بناتے ہےں جبکہ اگر اےک گاڑی چوری ہوتی ہے تو ڈی اےس پی ےا اےس پی سطح کے افسر کو تعینات کےا جاتا ہے اس کےس مےں اےک سابق آرمی چےف اور اےک سابق صدر آرمی کمانڈوز سمےت پےشی پر آئے اور سب انسپکٹر کس طرح اسے گرفتار کر سکتا ہے آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالتی حکم کی تعمےل کی ہے اور پرویز مشرف کو گرفتار کر کے جوڈےشل مجسٹرےٹ کے سامنے پےش کر دےا ہے اس پر جسٹس شوکت عزےز صدےقی نے کہا کہ مےں آج کی بات نہےں کر رہا بلکہ کل کی بات کر رہا ہوں وہ گزشتہ روز عدالت سے گرفتار کےوں نہےں ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مےں نے اےس اےس پی آپرےشنز ےاسےن فاروق کو سےکےورٹی کے لےے اسلام آباد ہائی کورٹ مےں تعےنات کےا تھا اس کے با وجود وہ کےسے نکل گئے۔ اس پر جسٹس صدےقی نے کہا کہ اےس اےچ او اور اےس اےس پی ےہاں ضرور موجود تھے مگر وہ پرویز مشرف کی گرفتاری کے لےے نہےں بلکہ ان کی سےکےورٹی کے لےے تعےنات تھے جسٹس شوکت عزیز صدےقی نے آئی جی سے کہا کہ کار چوری کی تفتےش اےس پی کو دے دےتے ہےں پروےز مشرف کا معاملہ سب انسپکٹر کے کندھوں پر ڈال دےا گےا کےوں نہ آپ کو معطل کر دےا جائے آپ اس عہدہ کے اہل ہی نہےں۔ جسٹس صدےقی نے آئی جی کی سخت الفاظ مےں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کل عدالت کے باہر جو ڈرامہ ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے۔ جسٹس صدےقی نے آئی جی سے پوچھا کہ پروےز مشرف کی عدالت مےں سماعت کے معاملہ کو دیکھیں اگر اےسا کوئی حکم تحرےری طور پر جاری ہوا تھا تو اسے دکھائےں، آئی جی کا کہنا تھا کہ اےسا کوئی تحرےری حکم جاری نہےں ہوا جسٹس صدےقی نے کہا کہ پھر بظاہر آپ ملے ہوئے ہےں اور پولےس نے پروےز مشرف کو فرار مےں مدد دی۔ جسٹس صدےقی نے استفسار کےا کہ کےا آئی جی نے پرویز مشرف کے خلاف درج اےف آئی آر کا متن پڑھا ہے بےان کردہ واقعات کی روشنی مےں درج کی گئی دفعات درست ہےں جس پر آئی جی نے اعتراف کےا کہ نہ تو اےف آئی آر مےں ٹھےک دفعات لگائی گئی ہےں اور نہ ہی مقدمہ کی تفتےش درست ہوئی ہے جسٹس صدےقی نے کہا کہ پرویز مشرف کے عدالت سے فرار سے عدالت کی جگ ہنسائی ہوئی۔ مےں ابھی آپ کے خلاف آرڈر لکھوں گا عدالت نے کےس پر فےصلہ محفوظ کرلےا۔ پرویز مشرف پیشی
پرویز مشرف پیشی