”او پرویز مشرف پھڑیا گیا جے“ سابق صدر پولیس والوں کے حصار میں پریشان
لندن (این این آئی)برطانوی میڈیا نے اپنی رپورٹیں میں کہا ہے کہ پیشی کے موقع پر پرویز مشرف نے شلوار قمیص زیبِ تن کر رکھی تھی۔ پولیس اہلکاروں کے حصار میں ہونے کی وجہ سے پریشانی ان کے چہرے پر نمایاں تھی اور وہ ادھر ادھر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ کمرہ عدالت میں ملزم پرویز مشرف اور ان کی سکیورٹی کے عملے کے علاوہ چند پولیس اہلکار بھی موجود تھے جو سابق آرمی چیف کے خلاف ججز کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے کا ریکارڈ لے کر آئے تھے چونکہ کمرہ عدالت بہت چھوٹا تھا اس لیے اس کے باہر ہی وکلا ءاور صحافیوں کو جگہ مل سکی۔جس جس وکیل کو معلوم ہوتا گیا کہ پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کردیا گیا ہے تو اپنے وکلا ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلا رہے تھے کہ” او مشرف پھڑیا گیا جے“ (یعنی مشرف کو گرفتار کرلیا گیا ہے)وکلا اور بالخصوص نوجوان وکلا ءنے ان آوازوں پر لبیک کہتے ہوئے عدالت کا رخ کیا جہاں پر ملزم کو پیش کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وکلا ءنے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو اور شاید اتنی خوشی کسی اور کو نہ ہوئی ہو جتنی وکلا ءکو ہوئی ہے۔اس عدالت میں بھی پولیس نے پرویز مشرف کے پروٹوکول کو نظر انداز نہیں کیا اور جب فریقین کے دلائل ختم ہوگئے تو بجائے اس کے کہ انہیں فیصلہ آنے تک کمرہ عدالت میں ہی بیٹھایا جاتا انہیں ان کی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھایا گیا اور بعدازاں انہیں فیصلے سے آگاہ کردیا گیا جس کے بعد وہ اپنے فارم ہاﺅس پر چلے گئے۔سماعت کے دوران پرویز مشرف کو ایک کرسی پر بٹھایا گیا تھا جبکہ ان کے اردگر ان کی سکیورٹی کا عملہ موجود تھا۔کمرہ عدالت سے باہر نکلنے پر وکلا نے پرویز مشرف کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس موقع پر سابق فوجی صدر کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا کوئی بھی کارکن موجود نہیں تھا۔ سابق فوجی صدر کی عدالت میں پیشی کے دوران قریبی علاقے میں سیکورٹی کے اقدامات سخت کیے گئے تھے جس کی وجہ سے بچوں کو سکول اور سرکاری ملازمین کو اپنے دفاتر جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ علاقے میں ٹریفک کو روک دیا گیا تھا۔ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ایک شخص وحید احمد نے بتایا کہ انہیں پرویز مشرف کے صدر ہونے یا پھرگرفتار ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پرویز مشرف کے لیے بطور صدر بھی روٹ لگتا ہے اور بطور ملزم بھی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو تو کسی طریقے سے بھی ریلیف نہیںملتا۔