پولیس کا سیاسی استعمال (آخری قسط)
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ختم ہونے کو ہے، چار سو میڈیا کا طوطی بول رہا ہے جس نے لوگوں کی آگہی (awareness) کو بہت زیادہ بلند کر دیا ہے، جس کی وجہ سے حکومتوں کے لئے من مانی کرنا اب اس طرح سے ممکن نہیں رہا۔ جیسے پہلے ہوا کرتا تھا، سوشل میڈیا کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔دنیا بھر کی حکومتیں ہر وقت خوردبین کے نیچے رہتی ہیں جہاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی تقرریوں کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ خاص طور پر پولیس ایک ایسا محکمہ ہے کہ دنیا کی کوئی حکومت چاہے یا نہ چاہے، نہ تو وہ اس کا سیاسی استعمال کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ پولیس جیسے اہم ترین محکمہ کو اپنے من پسند لوگوں کے حوالہ کر دے۔ پبلک ایڈمنسٹریشن، گڈ گورننس، قواعد و ضوابط اور ریاستی مشینری کے استعمال کی نئی تعریفیں اور تشریحات دنیا بھر میں رائج ہو چکی ہیں جن کی بنیاد عام طور پر میرٹ، شفافیت اور کارکردگی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں البتہ الٹی گنگا بہتی ہے، نہ کوئی اصول نہ ضابطہ، وفاقی حکومت ہو یا چاروں صوبائی حکومتیں، ہر حکومت ہی آئے دن بے قاعدگیوں کی نئی داستانیں رقم کر تی رہتی ہیں۔ پاکستان میں محکمہ پولیس ایک ایسی جھیل ہے، جس کا پانی گدلا کرنے میں کوئی بھی صوبائی حکومت کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے، دیکھا جائے تو پولیس کا سیاسی استعمال ایک ایسا نشہ بن چکا ہے، جس سے چھٹکارا پانا چاروں میں سے اب کسی وزیر اعلیٰ کے بس کی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اب حال ہی میں دیکھ لیجئے کہ پنجاب پولیس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، کیا یہ ایک انہونی نہیں کہ پنجاب کے ریٹائرڈ آئی جی مشتاق سکھیرا ریٹائر ہونے کے بعد بھی بدستور پولیس کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ کبھی ایسا ہوا اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے ،کیونکہ پولیس ایک ڈسپلنڈ فورس ہے اور کوئی بھی ڈسپلنڈ فورس صرف اس وقت ہی اپنا کام درست طریقہ سے کر سکتی ہے جب اس کی چین آف کمانڈ واضح اور منصفانہ ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو سینئیر افسران کا مورال زمین میں دفن ہو جاتا ہے یا سمند ر میں غرق۔
اب جیسا کہ مشتاق سکھیرا کے کیس میں ہو رہا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے باوجود پولیس کی کمان کر رہے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 21 گریڈ کے نصف درجن سے زائد ایڈیشنل آئی جی کام کر رہے ہیں جو انتہائی پروفیشنل ہیں اور پولیس کی کمان کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ ہر PSP افسر کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک دن پولیس کی کمان کرے گا، سسٹم کچھ ایسا ہے کہ کیرئیر کے آخر تک پہنچ کر اس کے آئی جی بننے کی باری آتی ہے۔ جب مشتاق سکھیرا آئی جی تھے تو ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ 10 اپریل 2017 کو ریٹائر ہوں گے۔ ظاہر ہے پولیس کے سینئیر افسران اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب ان میں سے کسی ایک کو اہلیت، قابلیت، سینیارٹی اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب پولیس کا سربراہ مقرر کیا جانا تھا، لیکن ہوا کیا؟ مشتاق سکھیرا کی ریٹائرمنٹ پر مروجہ روائت اور قانون کے تحت نئے مستقل آئی جی کی تقرری کے وقت تک کے لئے ایڈیشنل آئی جی کیپٹن عارف نواز نے چارج لیا، لیکن اگلے ہی دن ایک اور ایڈیشنل آئی جی کیپٹن عثمان خٹک نے میڈیا پر انٹرویو اور بیانات دینے شروع کردئیے۔ ایک ڈسپلنڈ فورس میں ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ ایک ایڈیشنل آئی جی میڈیا پر آکر تنقید شروع کر دیں۔ اس وقت بھی اہل نظر نے اپنی اس رائے کا اظہار کر دیا تھا کہ ایک ایڈیشنل آئی جی خوامخواہ میڈیا پر آکر بیانات نہیں دے رہا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ معاملہ چونکہ فوری نوعیت کا تھا اس لئے یہ بھید اگلے دن ہی کھل گیا جب پنجاب حکومت کی طرف سے اگلے دو دنوں میں دو نوٹیفیکیشن جاری ہوئے۔
ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ کسی کو تین ماہ کے لئے صوبہ کے آئی جی کا ایکٹنگ چارج دیا گیا ہو۔ گڈ گوورننس اور بیڈ گورننس کی بحث تو ایک طرف رہی، پولیس کے معاملات سمجھنے والے جانتے ہیں کہ پولیس اس وقت تک پرفارم نہیں کر سکتی، جب تک اس کا سربراہ نہ صرف سیاسی دباؤ سے آزاد ہو بلکہ اسے اپنے ویژن کے مطابق اسے لیڈ نہ کرے۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ پولیس کا سربراہ اس وقت تک ایک کمٹمنٹ کے تحت فورس کو لیڈ نہیں کر سکتا جب تک اسے اپنے رفقاء کا مکمل اعتماد حاصل نہ ہو۔ جہاں تک عثمان خٹک کا تعلق ہے، ان کے پروفیشنل ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے، لیکن ان کی اپنی ریٹائرمنٹ میں صرف چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ اتنی کم مدت میں وہ ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ پنجاب پولیس کے لئے اپنے ویژن کے مطابق کوئی پالیسی بنا سکیں۔ انہیں تین ماہ کا ایکٹنگ چارج دے کر پنجاب حکومت نے پولیس کے اعلی افسران کو سخت بد دل کر دیا ہے ۔میری اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس کے کئی سینئر افسران اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ انہوں نے وفاق یا دوسرے صوبوں میں جانے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔
سابق آئی جی سندھ رانا مقبول احمد بھی اپنی وفاداری کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اگر ایک حاضر سروس آئی جی اپنے تین سالہ دور میں تھانہ کلچر کی اصلاح نہیں کر سکا تو وہ ریٹائر ہو کر کیا اصلاح کرے گا؟ مشتاق سکھیرا کا دور کسی بھی لحاظ سے مثالی نہیں تھا، ان کے دور کا آغاز سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اختتام وردی کی تبدیلی سے ہوا جس کے بارے میں بہت سی باتیں ،مخصوص حلقوں میں کہی جاتی ہیں۔ ان باتوں میں سکینڈل کے چسکے بھی ہیں اور بے قاعدگیوں کی بازگشت بھی، خیر میرا حسن ظن ہے کہ یہ باتیں غلط ہی ہوں گی، لیکن تب بھی یہ تو حقیقت ہی ہے کہ پنجاب پولیس کی نئی وردی نے پولیس کا سارا امیج خراب کردیا ہے۔