فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 65
ان ہی دنوں میں علی زیب کی فلم ’’جیسے جانتے نہیں ‘‘ بھی بن رہی تھی۔ سید سلیمان اس کے ہدایت کار تھے۔ جب ریلیز کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ رنگیلا کی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ اور علی زیب کی ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ ایک ہی دن نمائش کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔ علی زیب کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔ ان کی جوڑی بے حد مقبول تھی اور فلموں کی کامیابی کے لئے ان کا نام ہی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ ان کی پہلی ذاتی فلم ’’آگ‘‘ بے حد کامیاب ہوئی تھی۔ اس فلم پر انہوں نے زیادہ سرمایہ اور توجہ صرف کی تھی۔ اس لئے توقع تھی کہ یہ فلم بہت معیاری ہو گی اور سپرہٹ ہو جائے گی۔ ریلیز سے ایک روز پہلے رات کے وقت ہم ایک سیٹ پر گئے جہاں محمد علی اور زیبا شوٹنگ کر رہے تھے۔ رنگیلا بھی وہاں آگیا۔ سب اس کے پیچھے پڑ گئے کہ تمہیں کیا سوجھی ہے کہ ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ کے مقابلے میں اپنی فلم لگا رہے ہو؟ محمد علی نے بھی کہا کہ رنگیلے‘ کیوں اپنے پیر پر کلہاری مارتے ہو۔ باز آجاؤ ورنہ بہت نقصان اٹھاؤ گے۔
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رنگیلا حسب عادت سب کی باتیں سنتا اور مسکراتا رہا۔ دوسرے دن دونوں فلمیں ریلیز ہوئیں اور رنگیلا کی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ سپر ہٹ قرار دی گئی۔ ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ علی زیب کی اداکاری‘ سید سلیمان کی ہدایت کاری اور شاندار پروڈکشن کے باوجود اوسط درجے کی فلم ثابت ہوئی۔
اگلے دن وہی سیٹ تھا‘ وہی لوگ تھے۔ محمد علی اور سید سیلمان افسردہ افسردہ تھے۔ زیبا بھی خاموش سی نظر آرہی تھیں۔ رنگیلا کی فلم کا تذکرہ ہر ایک کی زبان پر تھا۔ رنگیلا نے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب رنگیلا اسٹوڈیو پہنچے اور فلمی دستور کے مطابق سب سے مبارک بادیں وصول کیں۔ فلمی دنیا میں کامیابی سے بڑی خوبی کوئی اور چیز نہیں ہے۔ رنگیلا کی فلم کامیاب ہو گئی تھی اور اب ہر ایک کی زبان پر ان کے لئے تعریف کے سوا کچھ نہ تھا۔
رنگیلا سیٹ پر گئے تو سب سے پہلے محمد علی اور زیبا کے پاس گئے۔ محمد علی نے کھلے دل سے رنگیلا کو فلم کی کامیابی پر مبارک باد پیش کی۔ زیبا کے پاس گئے۔ زیبا نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ اس طرح رنگیلا نے اپنے آپ کو منوالیا اور اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس کی دوسری فلم ’’دل اور دنیا‘‘ پہلی فلم سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی۔ اس فلم کا معیار ہر لحاط سے بہت اچھا تھا۔ اس کے بعد رنگیلا کی خوش قسمتی کا دور شروع ہو گیا۔ وہ شخص جس کا سب مذاق اڑایا کرتے تھے‘ جو آغا سلیم رضا کے گھر سے ناشتے دان لے کر ان کے دفتر جایا کرتا تھا‘ جو چند روپے کے عوض فلموں کے سائن بورڈبنایا کرتا تھا‘ وہ فلمی دنیا کی بہت اہم اور ممتاز ہستی بن گیا۔ رنگیلا کی کامیاب فلموں کی قطار سی لگ گئی۔ بڑی بڑی ہیروئنیں رنگیلا کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ تھیں مگر رنگیلا کو بڑی ہیروئنوں کے ناموں کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی فلم صرف اسی کے نام پر فروخت ہو جاتی تھی۔ اس کے ساتھ دوسرے اور تیسرے درجے کی ہیروئنیں بھی قبول کر لی جاتی تھیں۔ رنگیلا کا نام چل رہا تھا۔ اس کے لئے خاص طور پر کہانیاں لکھی جارہی تھیں۔ اس نے ہر ایک سے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا تھا۔ وہ ادا کار بھی تھا‘ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھا، کہانی نویس اور گلوکار بھی تھا‘ موسیقار بھی تھا اور ہر حیثیت میں کامیاب تھا۔
رنگیلا نے فلمی صنعت کو فتح کر لیا تھا فتوحات کا دور ’’کبڑا عاشق‘‘ بنانے تک جاری رہا۔ یہ فلم کیا فلاپ ہوئی رنگیلا کے ستارے گردش میںآگئے۔ وہ چند ماہ کے اندر عرش سے فرش پر پہنچ گیا۔ فلم سازوں نے منہ موڑ لیا۔ فلم بینوں نے اس کی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں۔ ایسی ناکامی کے بعد بہت کم اداکار فلمی صنعت میں زندہ رہتے ہیں۔ مگر رنگیلا نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہوا۔ لوگوں کی باتوں اور مذاق کا بھی اس نے برا نہیں مانا۔ وہ نئے سرے سے مقدر بنانے کے لئے کمربستہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری زندگی حاصل کر لی جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
رنگیلا کو قدرت نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر کسی مغربی ملک میں ہوتا تو نہ جانے کس مقام پر ہوتا لیکن اس کی باتوں اور حرکتوں سے اس کی بے پناہ ذہانت کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس کی زبان سے کبھی کوئی چونکا دینے والی بات سننے کو نہیں ملی۔ مگر اس کے کام نے سب کو چونکا دیا۔ شہرت اور دولت نے اسے مغرور نہیں کیا۔ اس کا طرز عمل بھی تبدیل نہیں ہوا۔ بس فرق یہ ہوا کہ اب وہ تاش کے کھیل میں زیادہ بڑی رقمیں ہارنے لگا۔ تاش رنگیلا کی کمزوری ہے مگر تاش کے کھیل میں وہ خوش قسمت نہیں ہے۔ شاید اسی لئے دوسرے شعبوں میں قسمت کا دھنی ہے۔
میری رنگیلا سے کبھی دوستی نہیں رہی۔ نہ زیادہ ملاقات کا موقع ملا۔ سرراہ ملتے رہے۔ اس سے بات بھی کوئی کیا کرے۔ لیکن جب کبھی رنگیلا کی ضرورت پڑی اس نے ذرا بھی پس و پیش نہیں کیا۔ رنگیلا نے ایک زمانے میں فلموں میں نئے چہرے تلاش کرنے شروع کئے تھے۔ کئی شادیاں بھی کیں۔ کچھ اصل‘ کچھ نقلی۔ ایک بار شمیم آرا کے یونٹ کے ساتھ منیلا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں رنگیلا بھی فلم کے یونٹ کے ساتھ مقیم تھا۔ اس نے ایک چھوٹے قد کی فلپائنی لڑکی سے تعارف کراتے ہوئے کہا ’’آفاقی صاحب، یہ آپ کی بہو ہے‘‘
پھر اس سے کہا ’’سلام کرو‘ یہ تمہارے بزرگ ہیں۔‘‘
اس لڑکی نے فوراً سلام کر لیا۔ پتا چلا کہ جب کبھی رنگیلا صاحب کسی فلم کے سلسلے میں منیلا جاتے ہیں تو یہ حاضر ہو جاتی ہے۔ ان کی خدمت کرتی ہے کپڑے دھوتی ہے۔ استری کرتی ہے اور دوسرے سارے کام کرتی ہے۔ خدا جانے بیوی ہے یا نہیں‘ مگر وہ سب کام کرتی ہے جو بیویوں کو کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)
اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)