دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ چوتھی قسط
ہر سُر سے لذیذ تر اس صدا میں وہ سحر تھا کہ میرا وجود سراپا گوش ہوگیا۔ میرا پورا جسم اور اس کی ہر ہر قوت کانوں اور سماعت میں سمٹ آئی۔ میں مزید کچھ سننے کا منتظر تھا۔ مگر گفتگو میں ایک وقفہ آگیا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ شاید اب مجھے کچھ کہنا چاہیے۔ جو پہلی بات میری زبان پر آئی وہ یہ تھی:
’’مالک! زندگی میں یہی ایک حقیقت تو جانی ہے۔‘‘
میری یہ بات میرے اپنے کان بمشکل سن سکے تھے۔ مگر حاضر و غائب کے جاننے والے اور دلوں کے بھید پالینے والے تک وہ پہنچ گئی تھی۔ جواب ملا:
’’مگر یہ بات جاننے والا ہر شخص یہاں تک نہیں آتا۔۔۔ جانتے ہو عبد اللہ! تم یہاں تک کیسے آگئے؟‘‘
اس دفعہ میرے شہنشاہ کے لہجے کے جاہ و جلال میں اپنائیت کا رنگ جھلک رہا تھا۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اس لیے کہ تمھاری زندگی کا مقصد لوگوں کو میرے بارے میں بتانا تھا۔ میری ملاقات سے خبردار کرنا تھا۔ تم نے میری یاد کو۔۔۔ میرے کام کو اپنی زندگی بنالیا۔ یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
آسمان و زمین کے مالک کی گفتگو اور آواز سنتے رہنا میری زندگی کی شدید ترین خواہش بن چکی تھی، مگر ایک دفعہ پھر مالک الملک اپنی بات کہنے کے بعد ٹھہرگئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرا رب مجھے بولنے کا موقع دے رہا ہے۔ میں نے عرض کیا:
’’کیا میں آپ کے پاس یہاں رُک سکتا ہوں؟‘‘
’’مجھ سے کوئی دور نہیں ہوتا۔ نہ میں کسی سے دور ہوتا ہوں۔ میرا ہر بندہ اور میری ہر بندی جو میری یاد میں جیے ، وہ میرے پاس رہتا ہے۔۔۔ اور کچھ۔۔۔‘‘
آخری بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ ملاقات کا وقت ختم ہورہا ہے۔ میں نے عرض کیا:
’’میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
’’حکم کا وقت گزرگیا ہے۔ اب تو تمھیں حکمران بنانے کا وقت آرہا ہے۔ فی الحال تم واپس جاؤ۔ زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی۔‘‘
میں نے چلتے چلتے عرض کی:
’’آپ قیامت کے دن مجھے بھولیں گے تو نہیں۔ میں نے اس دن کی وحشت اور آپ کی ناراضی کا بہت ذکر سن رکھا ہے۔‘‘
فضا میں ایک حسین تبسم بکھر گیا۔ کھنکتے ہوئے لہجے میں صدا آئی:
’’بھولنے کا عارضہ تم انسانوں کو ہوتا ہے۔ بادشاہوں کا بادشاہ۔۔۔ تمھارا مالک، تمھارا رب کچھ نہیں بھولتا۔ رہا میرا غصہ، تو وہ میری رحمت پر کبھی غالب نہیں آتا۔ تم نے تو زندگی بھر مجھے امید اور خوف کے ساتھ یاد رکھا ہے۔ میں بھی تمھیں درگزر اور رحمت کے ساتھ یاد رکھوں گا۔ لیکن۔۔۔‘‘، ایک لمحے کے شاہانہ توقف کے بعد ارشاد ہوا:
’’تمھاری تسلی کے لیے میں صالح کو تمھارے ساتھ کررہا ہوں۔ یہ ہر ضرورت کے موقع پر تمھارا خیال رکھے گا۔‘‘
یہ تھی میری اور صالح کی پہلی ملاقات کی روداد اور اس کے میرے ساتھ رہنے کی اصل وجہ۔ عالمِ برزخ میں میری زندگی جسم کے بغیر تھی۔ اس میں میرے احساسات، جذبات، تجربات اور مشاہدات کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی خواب میں ہوتی ہے۔ یعنی غیر مادی مگر شعور سے بھرپور زندگی جس میں مجھے ان نعمتوں کا مکمل احساس رہتا جو جنت میں مجھے ملنے والی تھیں۔ صالح میری خواہش پر وقفے وقفے سے مجھ سے ملنے آتا رہا۔ ہر دفعہ وہ مجھے نت نئی چیزوں کے بارے میں بتاتا رہتا اور میرے ہر سوال کا جواب دیتا۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی بڑھتی گئی۔ پھر آخری ملاقات میں اِس نے مجھے بتایا تھا کہ ’زندگی‘ شروع ہونے جارہی ہے۔ اور اب میں اس کے ساتھ میدانِ حشر کو تیزی کے ساتھ عبور کرتا ہوا عرش کی طرف بڑھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلتے چلتے میں نے اردگرد دیکھا تو تاحد نظر ایک ہموار میدان نظر آیا۔ ماحول کچھ ایسا ہورہا تھا جیسا فجر کی نماز کے بعد اور سورج نکلنے سے قبل کا ہوتا ہے۔ یعنی ہلکا ہلکا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ اس وقت اس میدان میں کم ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ مگر جو تھے ان سب کی منزل ایک ہی تھی۔ میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ان میں سے کوئی نبی یا رسول بھی ہے؟ میں نے صالح کو دیکھا۔ اسے معلوم تھا کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ کہنے لگا:
’’وہ سب کے سب پہلے ہی اٹھ چکے ہیں۔ ہم انہی کے پاس جارہے ہیں۔‘‘
’’کیا ان سے ملاقات کا موقع ملے گا؟‘‘، میں نے بچوں کی طرح اشتیاق سے پوچھا۔
وہ چلتے چلتے رکا اور دھیرے سے بولا:
’’اب انہی کے ساتھ زندگی گزرے گی۔ عبداللہ! تم ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ کیا ہورہا ہے۔ آزمائش ختم ہوچکی ہے۔ دھوکہ ختم ہوگیا ہے۔ اب زندگی شروع ہورہی ہے جس میں اچھے لوگ اچھے لوگوں کے ساتھ رہیں گے اور برے لوگ ہمیشہ برے لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔‘‘
اصل میں بات یہ تھی کہ میں ابھی تک شاک (Shock) سے نہیں نکل سکا تھا۔ دراصل ابھی تک نئی دنیا کا سارا تعارف عالمِ برزخ میں ہوا تھا۔ وہ ایک نوعیت کی روحانی دنیا تھی۔ مگر یہاں حشر میں تو سب کچھ مادی دنیا جیسا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں، احساسات، زمین آسمان ہر چیز وہی تھی، جس کا میں پچھلی دنیا میں عادی تھا۔ وہاں میرا گھر تھا، گھر والے تھے، میر امحلہ، میرا علاقہ، میری قوم۔۔۔ یہ سب سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک دھماکہ ہوا۔ میں نے رک کر صالح کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا:
’’میرے گھر والے کہاں ہیں؟ میرے رشتہ دار، احباب سب کہاں ہیں؟ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟ وہ نظر کیوں نہیں آرہے؟‘‘
صالح نے مجھ سے نظریں چراکر کہا:
’’جن سوالوں کا جواب مجھے نہیں معلوم وہ مجھ سے مت پوچھو۔ آج ہر شخص تنہا ہے۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا۔ اگر ان کے اعمال اچھے ہیں، تو یقین رکھو وہ تم سے آملیں گے۔ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو۔۔۔‘‘
صالح جملہ نامکمل چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔ اس کی بات سن کر میرا چہرہ بھی بجھ گیا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرا حوصلہ بڑھایا اور کہا:
’’اللہ پر بھروسہ رکھو۔ تم خدا کے لشکر میں لڑنے والے ایک سپاہی تھے۔ اس لیے پہلے اُٹھ گئے ہو۔ باقی لوگ ابھی اٹھ رہے ہیں۔ انشاء اللہ وہ لوگ بھی خیر کے ساتھ تم سے مل جائیں گے۔ ابھی تو تم آگے چلو۔‘‘
اس کی تسلی سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں سبک رفتاری سے اس کے ساتھ چلنے لگا۔(جاری ہے)
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)