ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر مصلحت پسندی کی گنجائش نہیں!

ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر مصلحت پسندی کی گنجائش نہیں!
ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر مصلحت پسندی کی گنجائش نہیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک ہی موضوع سے جڑی تین خبریں پڑھنے کے بعد ہم اپنے اقتدارِ اعلیٰ اور قومی سلامتی کے حوالے سے مصلحتوں کا شکار ہیں، ہمارے اندر کمزوریاں ہیں، جن کا فائدہ طاقتور ممالک اٹھاتے ہیں، ہمیں اب بھی اپنی کالونی سمجھتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم اُن کی اسی طرح تابعداری کریں گے، جیسے نو آبادیاتی علاقوں میں کی جاتی ہے۔

پہلی خبر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگادی ہے،انہیں مسلسل نگرانی میں رکھا جارہا ہے اور اُن کے موبائل تک ٹیپ کئے جارہے ہیں۔ یہ پابندی اسلام آباد میں تعینات ملٹری اتاشی کرنل جوزف عمانویل کے خلاف ایک نوجوان کو تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے ہلاک کرنے کے بعد کی جانے والی کارروائی کے ردعمل میں لگائی گئی ہے۔

دوسری خبر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ابھی تک کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا گیا۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سفارتی استثنا میں کسی کو مارنے کا اختیار شامل نہیں، اس لئے کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے قائم کی گئی کمیٹی پانچ روز میں فیصلہ کرکے اُن کا نام ممنوعہ لسٹ میں ڈالے۔

انہوں نے اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ وہ موقع پر قانونی شواہد اکٹھے نہیں کرسکی اور سفید چمڑی والے کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔ تیسری خبر جو آن لائن نے اسلام آباد سے دی ہے، اُس کا تعلق براہ راست اس معاملے سے تو نہیں، البتہ اس موضوع سے تعلق ضرور رکھتی ہے۔

اس خبر میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ احسن اقبال نے اپنے پیشرو چودھری نثار علی خان کی چار سال سے جاری داخلی سلامتی کے حوالے سے پالیسیوں کو تبدیل کردیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے دنیا کے ہر اُس ملک کے شہریوں پر ویزے کے بغیر پاکستان آنے کی ممانعت کا قانون نافذ کیا تھا، جہاں جانے کے لئے پاکستانیوں کو ویزا لینا پڑتا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے شہری بغیر ویزے کے پاکستان آتے تھے اور ائرپورٹ پر انہیں ویزا جاری کردیا جاتا تھا، مگر چودھری نثار علی خان نے اس پالیسی کو تبدیل کردیا اور امریکیوں پر بھی پاکستانی ویزا لے کر آنے کی پابندی عائد کردی، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔

برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سے آنے والوں کو ائرپورٹ پر ویزا جاری کردیا جاتا ہے اور اُن سے پاکستان آنے کا مقصد، حتیٰ کہ یہ تک نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کہاں ٹھہریں گے؟ خبر میں کہا گیا ہے کہ اس پر قومی سلامتی کے اداروں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ پالیسی نیشنل ایکشن پلان کے بھی خلاف ہے۔


ابھی کل ہی میری نظر سے یہ خبر بھی گزری تھی کہ پاکستانی پاسپورٹ ریٹنگ کے لحاظ سے بدترین سطح پر چلا گیا ہے۔ ہر ملک میں اس پر سفر کرنے والے کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور توہین آمیز سلوک سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

چودھری نثار علی خان سے کوئی سیاسی طور پر چاہے کتنا ہی اختلاف کرے، تاہم بطور وزیر داخلہ انہوں نے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لئے بہت اہم اقدامات اُٹھائے۔

اُن میں سب سے اہم اقدام وہی تھا، جس کا اوپر تذکرہ ہوا ہے کہ ویزے کے معاملے میں کسی بھی ملک کے شہریوں کو استثنا نہ دیا۔ سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی پر سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ انہوں نے بلا تحقیق امریکیوں کو ہزاروں ویزے جاری کئے، اُن میں اکثر امریکی ایجنٹ تھے، جنہوں نے پاکستان میں بیٹھ کر غیر علانیہ جنگ لڑی۔

اُس دور میں ائر پورٹس پر تعینات پاکستانی افسران بناتے ہیں کہ جب امریکی جہاز سے اترتے تھے تو ان کی باڈی لینگوئیج بتاتی تھی کہ اُن کے پاؤں ایک مفتوحہ زمین پر پڑے ہیں، وہ امیگریشن کاؤنٹر پر رکے بغیر گزر جاتے تھے اور انہیں روکنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی۔ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانی قونصلیٹ کو بھی ویزا جاری کرتے ہوئے زیادہ چھان پھٹک سے روک دیا گیا تھا۔ سو اس پس منظر میں چودھری نثار علی خان کا یہ اقدام بہت جرأت مندانہ تھا کہ انہوں نے امریکیوں کو بھی ویزے کا پابند بنادیا۔

ذرا سوچیں کہ ایک ملٹری اتاشی کے لئے امریکہ کس قدر طیش میں آگیا ہوا ہے کہ اس نے پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ اُس وقت امریکیوں پر کیا بیتی ہوگی جب انہیں ویزا لینے کا پابند بنادیا گیا اور ویزا دینے کے بھی مکمل ضابطے پورے کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔

اب اگر یہ خبر درست ہے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے یوٹرن لے لیا ہے اور ویزے کی پابندی ختم کردی ہے، تو یہ افسوسناک امر ہے، خود چودھری نثار علی خان بھی گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کی پالیسی شفاف بنادی تھی، اسی طرح غیر ملکیوں کو ویزا لے کر آنے کا پابند بنایا تھا۔

غالباً احسن اقبال نے کسی دباؤ پر یا پھرچودھری نثار کی مخالفت میں یہ پالیسی تبدیل کردی ہے، جسے کسی بھی طرح قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے فیصلوں کی پہلے قومی اسمبلی سے منظوری لی جانی چاہئے۔


ایسے کمزور فیصلوں ہی سے امریکہ جیسے ملک کے سفارت کاروں کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ من مانیاں کریں، قانون توڑیں، بندے ماریں اور پھر سفارتی استثنا کی آڑ میں چھپ جائیں۔۔۔ ایک طرف امریکہ ہمارے سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دیتا ہے، حالانکہ انہوں نے کچھ کیا بھی نہیں، کوئی اشارہ توڑا یا بندہ مارا، کیا انہیں سفارتی استثنا حاصل نہیں، کیا وہ آزادی سے نہیں گھوم پھرسکتے؟ بھارت بھی یہی کرتا ہے اور اب امریکہ بھی یہی کررہا ہے۔

ہم امریکیوں کو جنیوا کنونشن یاد دلاتے ہیں، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔امریکی ہمارے ہاں بندہ قتل کردیں یا گاڑی کے نیچے کچل دیں، تب بھی ان کا سفارتی استثنا ختم نہیں ہوتا۔ یہ تو سیدھا سادہ اپنے ملک کے قوانین اور شہریوں کو بے توقیر کرنے کے مترادف ہے۔

امریکی فوجی اتاشی کرنل جوزف کے معاملے میں پولیس نے اگر ڈھیل نہ دکھائی ہوتی اور اسے قانون کے مطابق بندہ مارنے پر گرفتار کرکے کارروائی شروع کی جاتی تو امریکیوں کا رویہ کچھ اور ہوتا، لیکن اسے وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ گھر جانے کی اجازت دے کر ہم نے جس کمزوری کا مظاہرہ کیا، آج اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

امریکہ نے ہمارے سفارت کاروں کی آزادی سلب کردی ہے۔ کرنل جوزف تو آج بھی سفارت خانے سے نکل کر اسلام آباد کے کسی بھی حصے میں بلاخوف و خطر جاسکتا ہے، حالانکہ وہ ایک ملزم ہے، جس نے ایک انسان کو مارا ہے، مگردوسری طرف واشنگٹن میں ہمارے سفارت کار ہیں، جنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا، لیکن اُن کے ساتھ ملزموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ہماری وزارتِ خارجہ غالباً دنیا کی سب سے مسکین وزارتِ خارجہ ہے، جس کا کام صرف لجاجت کرنا ہے، جو کبھی ایسا رد عمل ظاہر نہیں کرتی جو ایک آزاد و خود مختار ملک کے شایانِ شان ہو۔


یہ بھارت جو ہمارے سفارت کاروں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے، جب ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وحشیانہ فائرنگ سے پاکستانی شہری شہید کرتا ہے، تب بھی ہم بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو شاہانہ طمطراق کے ساتھ وزارتِ داخلہ آتے دیکھتے ہیں، جب اسے ایک احتجاجی مراسلہ تھما دیا جاتا ہے، وہ اسی طمطراق سے واپس جاکر اس مراسلے کو کسی دراز میں رکھ کر بھول جاتا ہے۔

دو دن نہیں گزرتے کہ بھارت پھر حملہ کرکے ہمارے معصوم شہریوں کو شہید کردیتا ہے۔ یہ تو بھارت کا معاملہ ہے، جسے ہم اپنے برابر کا ملک سمجھتے ہیں، لیکن اگر معاملہ امریکہ کا ہو تو پوری وزارتِ خارجہ اس بخار میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ امریکیوں کو ناراض ہونے سے کیسے روکا جائے؟ یہ تو کرنل جوزف کی وحشیانہ ڈرائیونگ کی فوٹیج سامنے آگئی۔

وہ نہ بنی ہوتی تو کسی نے یہ ماننا ہی نہیں تھا کہ قصور امریکی کرنل کا تھا، بلکہ سارا ملبہ مرنے والے نوجوان پر ڈال کر الٹا اس کے خلاف غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کا پرچہ درج کرلینا تھا۔

یہ تو بھلا ہو اُن سی سی ٹی وی کیمروں کا جو اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کے لئے جگہ جگہ لگا دیئے گئے ہیں، خصوصاً ہر بڑے چوراہے پر موجود ہیں، جس کی وجہ سے کرنل جوزف کے اشارہ توڑنے اور نوجوان موٹر سائیکل سواروں کو کچلنے کی فوٹیج بن گئی۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کو وہ سب کچھ کہنا چاہئے تھا جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے کہا۔

دنیا کا کوئی قانون بے گناہ کی جان لینے کا حق نہیں دیتا۔ کوئی پاکستانی سفارت کار امریکہ میں ٹریفک سگنل کی خلاف ورزری کرے اور کسی کو ٹکر مارکراس کی جان لے لے، تو پھر دیکھیں گے یہ سفارتی استثنا وہاں ہمارے سفارت کار کی کیسے جان چھڑاتا ہے؟۔۔۔ جب تک ہم اپنی عزت آپ نہیں کریں گے تو کسی دوسرے کوکیا پڑی ہے کہ وہ ہماری عزت کرتا پھرے

۔ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کو امریکیوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئے بغیر مقدمے کے فیصلے تک کرنل جوزف عمانویل کا نام اسی سی ایل میں ڈال دینا چاہئے۔

پوری سفارتی برادری اس کیس کو غور سے دیکھ رہی ہے، اگر اس میں کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرنل جوزف کو ملک سے جانے دیا گیا تو اسلام آباد سفارت کاروں کے لئے ابلیس کی جنت بن جائے گا، جہاں وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ پاکستانیوں کے قتل کے بعد بھی اُن پر کوئی قانون لاگونہیں ہوگا،نہ ہی کوئی ان سے کچھ پوچھنے کی جرأت کرے گا۔۔۔ کیا ہم چاہتے ہیں اسلام آباد پر یہ دن آئے؟

مزید :

رائے -کالم -