تفہیمِ اقبال: شکوہ، جواب شکوہ (5)
(بند نمبر9)
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا، اس کو کیا سرکس نے
توڑے مخلوق خدا وندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
اب اس بند کے مشکل الفاظ کے معانی:
شعر نمبر1۔ درِ خیبر (خیبر کا دروازہ۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جس میں مدینہ منورہ کے نزدیک واقع یہودیوں کے ایک انتہائی مضبوط اور مستحکم قلعہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فتح کیا تھا)۔۔۔ شہر قیصر کا (اشارہ ہے قیصرِ روم کے اس دارالحکومت کی طرف جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا)
شعر نمبر2مخلوق خداوند۔۔۔ (وہ خدا جو انسانوں کی بنائی ہوئی مخلوق تھے۔ یعنی وہ بت جو انسان خود ہی بناتا تھا اور پھر خود ہی اس کی پوجا کرنے لگتا تھا)۔۔۔ پیکر۔۔۔ (اجسام)
شعر نمبر3(آتش کدۂ ایراں۔۔۔ ایران آج بھی تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے وہاں ساسانیوں کی حکومت تھی۔ یہ وہ خاندان تھا جو زرتشت کی عبادت کیا کرتا تھا جس کو آگ کا خدا مانا جاتا تھا۔اہلِ ایران اس جگہ کی پوجا کیا کرتے تھے جس میں ہمیشہ آگ جلتی رہتی تھی۔ ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ زرتشت اس آگ (آتش) کا خدا ہے۔
اس مقام کو کہ جہاں یہ آتش مسلسل جلتی رہتی تھی آتشکدہ کہا جاتا تھا۔ جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو اس آگ کو بجھا دیا۔۔۔) یزداں (ایران میں یزداں اور اہرمن کا تصور موجود تھا۔ نیکی کے خدا کو ’یزداں‘ اور بدی کے خدا کو اہرمن (شیطان) کہا جاتا تھا لیکن ایرانی یزداں کو بھول کر اہرمن کی عبادت کیا کرتے تھے۔ آگ ان کے نزدیک گویا اہرمن تھی)
اس پورے بند کی سلیس تشریح یہ ہے:
اے خدا تو ہی بتا کہ قلعہ ء خیبر کا وہ دروازہ جو بہت وزنی اور مضبوط تھا اور جس کے اندر یہودی قلعہ بند ہو کر خود کو محفوظ سمجھے بیٹھے تھے اس کے دروازے کو کس نے اکھاڑا اور مسلم فوج کو قلعے کے اندر داخل ہونے کا موقع دیا؟ اور وہ شہر جو رومیوں کا دارالحکومت تھا اور جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کو کوئی فتح نہیں کر سکتا، اسے کس قوم نے فتح کیا؟۔۔۔ اور وہ بت جو انسان خود بنا بنا کر ان کی پرستش کیا کرتا تھا ان کو کس نے پاش پاش کیا؟ اور کافروں کے وہ لشکر جن کی تعداد بے حد و حساب تھی ان کو گاجر مولی کی طرح کس قوم نے کاٹ کر رکھ دیا ؟۔۔۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ایران کے آتش کدے کی وہ آگ بجھائی جو زیرِ زمین تیل کے کنویں سے نکل کر مسلسل جل رہی تھی۔ اور جسے ایرانیوں نے خدا سمجھ رکھا تھا؟ اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اہرمن (شیطان) کی جگہ یزداں (ربِ کائنات) کے تذکرے پھر سے زندہ کر دیئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بند نمبر10)
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی
اور تیرے لئے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہاں گیر، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ’ھو اللہ احد‘ کہتے تھے
اب مشکل الفاظ کے معانی:
شعر نمبر1۔زحمت کش (زحمت اٹھانے والا/ والی)۔۔۔ پیکار (جنگ، لڑائی)۔۔۔ زحمت کشِ پیکار (جنگ کی مصیبت/ مشکل اٹھانے والی)
شعر نمبر2 شمشیر (تلوار)۔۔۔ جہاں گیر۔(دنیا پر قبضہ کرنے والی)۔۔۔ جہاں دار (دنیا کو فتح کرنے والی)۔۔۔ تکبیر (نماز سے پہلے اذان کی وہ آواز جو پہاڑوں کے سینے دہلا دیتی ہے)
شعر نمبر
3۔ہیبت (رعب، دہشت، خوف)۔۔۔ صنم (بت)۔۔۔ ھواللہ ہو احد (اللہ ایک ہے)
اب اس بند کی سلیس تشریح :
اے باری تعالیٰ! تو ہی سوچ اور جواب دے کہ اقوامِ عالم میں وہ قوم کون سی تھی جو صرف تم ہی کو چاہتی تھی اور تیرے لئے ہی جنگ و جدال اور کشت و قتال کی مصیبتیں اٹھاتی تھی؟۔۔۔ کس قوم کی تلوار نے ایک دنیا کو فتح کیا اور کس کی تکبیر سے کفر کی نیند سوئی دنیا جاگ اٹھی؟۔۔۔ مٹی اور پتھر کے بت کس کے خوف سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ ان پر مسلمانوں کی دہشت کیوں اس قدر طاری رہتی تھی کہ زمین پر منہ کے بل گرکر بھی کہا کرتے تھے کہ اللہ ایک ہے؟
(بند نمبر11)
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
شعر نمبر1: قبلہ رو۔۔۔(کعبہ کی طرف چہرہ کرنے کی حالت)۔۔۔ زمیں بوس ہونا (زمین کو چومنا۔ جھک جانا، سجدہ کرنا)۔۔۔ قومِ حجاز (حجاز کی قوم، حجاز میں رہنے والے عرب جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے)
شعر نمبر2: محمود(سلطان محمود غزنوی جس نے 1001ء سے 1024ء تک 24سالوں میں غزنی (افغانستان) سے نکل کر ہندوستان پر سترہ حملے کئے اور ہر حملے میں ہندوؤں کو شکستِ فاش دی۔ پہلا حملہ لاہور پر کیا جہاں راجہ جے پال کی حکومت تھی۔ اس کو شکست دی، دوسرا حملہ بھی لاہور پر کیا اور جے پال کے بیٹے انند پال کو شکست دی اور آخری حملہ سومنات پر کیا جو سب سے بڑا، مشکل اور خطرناک حملہ تھا کیونکہ اس کے ایک بڑے مندر میں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا بت رکھا ہوا تھا جس کو بچانے کے لئے سارے ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی اپنی فوجیں لے کر آپہنچے تھے۔ محمود نے اس جنگ میں دشمن کے اس لشکرِ جرار کو شکست فاش دی اور مندر میں رکھا ہوا بت بھی توڑ دیا۔ سلطان محمود کو اسی لئے بت شکن یعنی بت توڑنے والا، کہتے ہیں)۔۔۔ ایاز (محمود کا ایک چہیتا غلام جو محمود کا بڑا وفادار، ذہین اور خوبرو نوجوان تھا)۔۔۔
بندہ (خادم ، غلام، نوکر)۔۔۔ بندہ نواز (غلام اور نوکر کو نوازنے والا۔ اس پر مہربانی کرنے والا۔ آقا اور مالک)
شعر نمبر3۔ بندہ (نوکر)۔۔۔ صاحب (آقا)۔۔۔ محتاج (حاجت مند، ضرورت مند)۔۔۔ غنی (جس کو کوئی ضرورت نہ ہو۔ ایسا انسان جو کسی بھی حوالے سے حاجت مند نہ ہو اور ہر ضرورت سے بے نیاز ہو)۔۔۔ سرکار (دربار، حکومت)
نماز اللہ کی ایک ایسی عبادت ہے جو کسی بھی حالت میں معاف نہیں۔ حتیٰ کہ لڑائی جاری ہو، گھمسان کارن پڑ رہا ہو اور کشتوں کے پشتے لگ رہے ہوں تو پھر بھی نماز کی معافی نہیں۔ اس وقت حکم یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ نماز ادا کرے، ایک حصہ جنگ کرتا رہا اور ایک حصہ نماز پڑھنے والوں کی حفاظت کرے۔
یہ ترتیب باری باری بدل کر ساری فوج کو نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس بند میں خدا کو بتایا جا رہا ہے کہ جب جنگ عین شباب پر ہوتی تھی تو پھر بھی مسلمان کعبے کی طرف منہ کرکے خدا کے حضور جھک جایا کرتے تھے۔ اس وقت جو نماز کے لئے صف بندی کی جاتی تھی اس میں چھوٹے بڑے اور سینئر جونیئر کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔
آج بھی جب نماز ادا کی جاتی ہے تو کسی وی آئی پی اور عام آدمی میں تخصیص نہیں کی جاتی۔ فوج کے چیف کے ساتھ ہی اس کا ایک معمولی سپاہی کھڑا ہوتا ہے۔
سب کے دل میں ایک عظیم ترین ہستی (خدائے واحد) کا تصور ہوتا ہے جس کے سامنے ہر شخص خواہ امیرہو خواہ غریب ،خواہ حکمران ہو یا اس کا نوکر سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔
اس بند کے آخری شعر میں ’’بندہ و صاحب‘‘ اور ’’محتاج و غنی‘‘ کے مرکباتِ عطفی استعمال کئے گئے ہیں۔ یعنی وہ دو الفاظ جن کے درمیان واؤ (و) آ جائے۔ اگر واو کی جگہ ’’اور‘‘ رکھ دیا جائے تو اس مرکب کا مطلب صاف ہو جاتا ہے۔ اس مرکب عطفی کی دوسری شرط یہ بھی ہے کہ اس کے دونوں الفاظ یا تو ہم معنی ہوں جیسے شان و شوکت ، عزم و حوصلہ، محنت و مشقت وغیرہ یا یہ دونوں الفاظ، معانی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں جیسے آمد و رفت ،بندہ و آقا، امیر و غریب، بلند و پست وغیرہ۔۔۔اقبال نے اس مصرعے میں جو دو مرکبات عطفی استعمال کئے ہیں ان میں اس شرط کو ملحوظ رکھا ہے ۔۔۔بظاہر پڑھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ شاعر نے کس فنکاری سے یہ کام انجام دیا ہے۔
پہلا مرکب ’’بندہ و صاحب‘‘ ہے جس کا معنی ایک دوسرے کا الٹ ہے یعنی ’’غلام اور آقا‘‘ اور دوسرا مرکب ’’محتاج و غنی‘‘ ہے جس کے معانی بھی ایک دوسرے کے برعکس ہیں یعنی حاجت مند اور وہ شخص جو کسی حاجت کا محتاج نہ ہو۔یہ دونوں طرح کے لوگ جب خدا کی سرکار میں نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو ایک ہو جاتے ہیں۔
اقبال کا یہ بند اگرچہ آسان اور سادہ الفاظ میں موزوں کیا ہوا ہے لیکن معانی کے اعتبار سے بہت بلیغ اور بہت بلند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بند نمبر12)
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو، کبھی ناکام پھرے
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
شعر نمبر1۔ محفلِ کون و مکان (دنیا، جگ، سنسار)۔۔۔ سحر و شام (صبح شام)۔۔۔ مئے توحید (توحید کی شراب یعنی خدا کو ایک ماننے کا وہ نشہ جو شراب کی طرح مسلمانوں کو چڑھا ہوا تھا)۔۔۔ صفتِ جام (شراب پینے والے گلاس کی طرح)
شعر نمبر2: کوہ (پہاڑ)۔۔۔ دشت(صحرا)
شعر نمبر3: بحرِ ظلمات (کالا سمندر)
اب اس بند کی تشریح:
شاعر اس بند میں اسلام کے اولین ایام کی تفصیل اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ نعوذ باللہ، شائد خدا کو وہ زمانہ یاد نہیں رہا جب مسلمان ساری دنیا (محفلِ کون و مکاں) میں صبح و شام خدائے واحد کا پیغام لے کر گھومتے رہتے تھے۔۔۔ اللہ کی وحدت کا مسلمانوں کو ایسا نشہ اور سرور تھا کہ وہ گھر گھر اور ملکوں ملکوں اس شرابِ توحید کو ہاتھوں میں شراب کے پیالے کی طرح تھامے مارے مارے پھرا کرتے تھے اور سب کو بتایا کرتے تھے کہ دیکھو! اللہ کے ساتھ کسی اور کوشریک نہ ٹھہراؤ۔اسی کی ذات عبادت کے لائق ہے۔
اے خدا! ہم اس شرابِ وحدت کے نشے میں دیوانے تھے اور ساری دنیا کو یہی شراب پلانے پر مجبور کیا کرتے تھے۔پہاڑ ہو کر صحرا، جنگل ہو کہ بیابان ہم تیرا پیغام لے کر گردش میں رہتے تھے۔۔۔ ایک بار پھر خدا کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم کو معلوم ہے ناں کہ ہم کبھی ناکام نہیں لوٹتے تھے۔ ہم جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کر دیا کرتے تھے۔
خداوند تعالیٰ کے ایک ہونے کا یہ پیغام ہم نے نہ صرف دشت و جبل میں عام کیا، بلکہ بحرظلمات میں بھی کود گئے۔۔۔ اس آخری مصرعے میں بحرِ ظلمات کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بحراوقیانوس ہے۔
اس زمانے میں چونکہ عربوں کو معلوم نہیں تھا کہ مراکش کے بعد جو سمندر آتا ہے اس کے پار بھی براعظم شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ واقع ہیں، اس لئے وہ اس بحر کو دنیا کا آخری سمندر سمجھتے تھے۔ ان عربوں کو بحر ہند اور بحرالکاہل کا تو پتہ تھا لیکن چونکہ بحراوقیانوس کی خبر نہ تھی اس لئے اس بحر کو ’’بحرِ ظلمات‘‘ یا ’’کالا سمندر‘‘ یا ’’اندھیرا سمندر‘‘ بھی کہا کرتے تھے۔