ولن کے چمچے کے طور پر اداکاری کرنے والا وہ اداکارجو پنجابی فلموں کا سب سے بڑا ہیرو بن گیا تھا 

ولن کے چمچے کے طور پر اداکاری کرنے والا وہ اداکارجو پنجابی فلموں کا سب سے بڑا ...
ولن کے چمچے کے طور پر اداکاری کرنے والا وہ اداکارجو پنجابی فلموں کا سب سے بڑا ہیرو بن گیا تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ایس چودھری )لالی ووڈ انڈسٹری میں زیادہ تر پنجابی فلموں کے اداکاروں پر قسمت اتفاقیہ طور پر مہربان ہوتی رہی ہے۔سلطان راہی ،لالہ سدھیر،اکمل،حبیب جیسے جنگجو ہیرو اداکاری کے شوق میں چھوٹے کریکٹر کرتے کرتے بڑے اور مرکزی کرداروں کی مجبوری بن گئے ۔اقبال حسن جیسا گھبرو اور بانکا اداکار بھی ایک ایسے حادثے کی پیداوار تھا جسے بعد ازاں ایک حادثہ ہی جہان فانی میں لے گیا ۔ سلطان راہی کی قسمت کا ستارہ اقبال حسن کے موت کی آغوش میں جانے کے بعد طلوع ہوا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ اگر اقبال حسن زندہ رہتے تو سلطان راہی کو یہ عروج نہ ملتا۔
اقبال حسن کو سب سے زیادہ شہرت فلم ’’شیر خان‘‘ سے ملی تھی اور یہ نام انکی پہچان بن گیا تھا ۔شیر خان میں کاسٹ کئے جانے سے پہلے اقبال حسن زوال پذیر ہورہے تھے۔اس فلم کا معاوضہ لینے کا انوکھا عہد نامہ لکھا گیا تھا ۔یونس ملک اس فلم کے ڈائریکٹر تھے۔دونوں میں طے پایا کہ اگر فلم کامیاب ہوگئی تو انہیں منہ مانگا معاوضہ ملے گا لیکن فلاپ ہونے پر ٹکا نہیں ملے گا۔لیکن شیر خان کامیاب ہوئی اور تین سو ہفتوں تک سینماوں کی زینت بنی رہی۔اس قدر کامیابی پر فلمساز نوٹوں سے بھرا تھیلا لیکر اقبال حسن کے پاس پہنچا اور کہا کہ جتنا چاہے وہ معاوضہ رکھنا چاہے رکھ لے۔اقبال حسن بنیادی طور پر وضعدار انسان تھا ،تھیلے میں سے اتنے ہی نوٹ لئے جتنے وہ دونوں ہاتھوں سے اٹھا سکتا تھا ۔اس نے کہا کہ میری قسمت میں اتنا ہی معاوضہ ہے۔
اقبال حسن نے بیس سال تک فلموں میں کام کیا ۔وہ دوسال تک فلموں میں ایکسٹرااور ولن کے چمچے کا کردار ادا کرتے رہے۔ 1965ء میں فلم ’’پنجاب دا شیر‘‘ میں پہلی بار کام کیا ۔اس فلم میں وہ معروف ولن مظہر شاہ کے چمچے کے طور پر نظر آئے ۔لیکن دو سال بعد جب ’’دل دا جانی‘‘ میں بھی انہیں ایکسٹر کا رول دیا گیا تو ان پر قسمت مہربان ہوگئی اوردوران شوٹنگ ہی وہ ولن کے چمچے کا کردار چھوڑ کر فلم’’ سسی پنوں ‘‘ میں بطورہیرو چن لئے گئے۔اس فلم میں نغمہ اور عالیہ شامل تھیں۔اسکے بعد اقبال حسن کے لئے کسی فلم میں ایکسٹرا کا کام کرنا مشکل ہوگیا ۔پنجابی فلموں کے کسی ایکسٹرا کا یوں ہیرو آکر کامیاب ہوجانا غیر معمولی بات تھی۔مزے کی بات یہ ہے کہ اقبال حسن کی یادگار فلم شیر خان میں سب سے پہلے اداکار محمد علی کو ہیرو کاسٹ کیا جانا تھا لیکن محمد علی نے اسے اپنی توہین سمجھا کہ وہ پنجابی فلم میں ہیروکیوں بنیں گے جس کے بعد یہ قرعہ اقبال حسن کے نام نکلا تھا ۔حالانکہ بعد میں محمد علی نے کئی پنجابی فلموں میں بھی کام کیا ۔شیر خان 12 اگست 1981ء کو عید الفطر کے روز ریلیز ہوئی اور سپر ہٹ ثابت ہوئی۔تین سو سے زائد فلموں میں کام کرنے والا یہ منفرد اداکار 14 نومبر 1984ء کے دن فلم ’’جورا‘‘ کی شوٹنگ سے واپسی پر ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگیا تھا ۔اس وقت کار میں پاکستان فلم انڈسٹری کے دوسرے مایہ ناز اداکار اسلم پرویز بھی سوار تھے جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند دن بعد وفات پاگئے ۔دونوں کی موت سے پنجابی فلموں کو شدید جھٹکا لگا تھا ۔ان کی یادگار فلموں میں،امن ، سسی پنوں،یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، جوانی دی ہوا، ڈاکو تے انسان، دس نمبری، جوڑ برابر دا، خانو دادا، جوان تے میدان، سجن دشمن، مرزا جٹ،دادا استاداور بدلے دے آگ وغیرہ شامل تھیں ۔

مزید :

تفریح -