شکریہ عدالت عالیہ
پاکستان کی موجودہ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے قومی مفاد کے عین مطابق ہیں ۔ سپریم کورٹ کے کردار کو ہدف تنقید صرف وہی لوگ بنا رہے ہیں , جن کے ذاتی سیاسی مفادات کو نقصان پہنچا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ تاریخ ساز فیصلے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام کےلیے سود مند ثابت ہوں گے ۔ آئین کے آرٹیکل 62ایف ون کی جو تشریح سپریم کورٹ نے کی ہے , اس سے مکمل اتفاق ہے ۔یاد رہے کہ سب سےپہلےڈاکٹر طاہرالقادری نےقوم کوآئین کا آرٹیکل 62اور63 یاد کروایا تھا ۔
آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق ناصرف موجودہ سیاسی مافیا کا کڑا احتساب کرنا ہوگا , بلکہ انتخابی نظام میں انہی آرٹیکلز کے مطابق ایسی اصلاحات کرنی ہوں گی , کہ بدعنوان سیاسی مافیا کو انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکے ۔ جو لوگ آج یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صادق اور امین کی کسوٹی پر پورا اترنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں ہوگا , وہ دراصل اپنے سیاسی اعمال نامے سے خوفزدہ ہیں , اور عوام کے ذہنوں میں بلاجواز شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں ۔ عوام کی نمائندگی کےلیے جب تک ایسی کڑی شرائط نہیں ہوں گی , اسلامی تصور جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے ۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا , بانی پاکستان نوزائیدہ مملکت کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے خواہشمند تھے ۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید ملت لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد دستوریہ سے منظور کروائی تھی , تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد کے عین مطابق آئین سازی کی بنیاد رکھی جا سکے ۔ 1973 کا متفقہ آئین اسی قرارداد مقاصد کی روشنی میں بنایا گیا ۔ 1973 کے آئین کے مطابق ہم نے پاکستان کو بتدریج ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا تھا ۔ 1973 کے آئین کی حقیقی روح کے مطابق پاکستان میں اسلام سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی ۔ مگر ہم نے آج تک آئین کو حقیقی روح کے مطابق نافذ نہیں کیا , جمہوری نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا , اور نہ ہی عوام کی فلاح وبہبود کو حکمرانوں نے مطمع نظر بنایا ۔ اس کے برعکس ہر آنے والی حکومت نے آئین کو موم کی ناک سمجھ کر ترامیم کرکے اپنے سیاسی مفادات کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی ۔ ہمارے سیاست دانوں نے قومی خزانہ بے دردی سے لوٹا , قومی مفادات پر ذاتی سیاسی مفادات کو ترجیح دی ۔ عوام کا احساس محرومی دور کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی ۔ اگر آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدعنوان سیاسی مافیا کے مفادات پر ضرب لگائی ہے , تو مفاد پرست ٹولہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہتے نظر آئے کہ سیاست دانوں کا احتساب عوام کو اپنے ووٹ سے کرنا چاہیے ۔ بجافرمایا مگر ہمارا انتخابی نظام بھی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا مجموعہ ہے , جسے ٹھیک نہیں کیا جارہا ۔ ایسے میں لازماً عوام کی تمام تر توقعات سپریم کورٹ سے وابستہ ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں ۔ توقع ہے کہ بدعنوان سیاسی مافیا کے خلاف یہ آپریشن اپنے اہداف ضرور حاصل کرے گا ۔
ایسے وقت میں جبکہ خاندان شریفیہ کے گرد اعلیٰ عدلیہ نے احتساب کے لیے گھیرا تنگ کردیا ہے , جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ سے بدعنوان سیاسی مافیا کی بوکھلاہٹ ظاہر ہوگئی ہے ۔ یہ حملہ بدعنوان سیاسی مافیا کا سپریم کورٹ پر حملہ ہے جو قابلِ مذمت ہے ۔ خیرچیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاون کا بھی ازخود نوٹس لےلیا ہے ۔ بڑے بھائی کے بعد اب چھوٹے بھائی کی باری آگئی ہے۔ جیسے جیسے خاندان شریفیہ کا انجام قریب آتا نظر آرہا ہے , لیگی صفوں میں انتشار بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس کی روایت پر اعتراضات اٹھانے والے دانشمند بتائیں کہ انہوں نے ملکی مسائل حل کرنے کےلیے کیا کچھ کیا؟ ناقدین کیا یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی معاملات کھٹائی میں پڑے رہنے دے؟ اگر چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز سے عوام کی داد رسی ہورہی ہے , تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔ اور ہمیں موجودہ اعلیٰ عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے ,جس نے آئین و قانون کی اصلی روح کے مطابق فیصلے دینے کی روایت کا آغاز کردیاہے ۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔