کرکٹ ورلڈکپ، سلیکشن کا ڈرامہ کیا؟
یہ کھیلوں کا موسم ہے۔ ایشیائی ممالک میں موسم بہار کے حوالے سے کھیل ہو رہے ہیں، تاہم یورپ میں فٹ بال اور کرکٹ کا زمانہ ہے۔ ادھر ہم نے بھی تیاریاں کیں کہ اگلے ماہ یہاں رمضان المبارک کا آغاز ہو رہا ہے تو اس کے آخری روز کرکٹ میں ایک روزہ عالمی کپ کے مقابلے شروع ہونا ہیں، پاکستان کی ٹیم کے لئے ایک موقع بنا ہے کہ یہ مقابلہ انگلینڈ میں ہو گا اور ہماری ٹیم کو انگلینڈ ہی کی ٹیم کے ساتھ ایک روزہ سیریز کھیلنا ہے، جس کے دوران پانچ ایک روزہ اور ایک ٹی 20 میچ ہو گا، یہ سیریز عالمی کپ شروع ہونے سے پہلے مکمل ہو جائے گی اور یوں ہمارے کھلاڑیوں کو وہاں کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ ہونے کا بھی موقع مل جائے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے طور پر اس کے لئے تیاریاں کی ہیں، سلیکشن کمیٹی نے دونوں سیریز کے لئے ٹیموں کا اعلان کر دیا جو بڑا دلچسپ ہے کہ پہلی سیریز کے لئے15رکنی کی بجائے 17 کھلاڑی جا رہے ہیں، ان میں15 تو وہ ہیں جو ورلڈ کپ کے لئے چُنے گئے اور دو کھلاڑی محمد عامر اور آصف فالتو فنڈ میں رکھے گئے ہیں،ان کو انگلینڈ کے خلاف سیریز میں امتحان سے گزرنا ہو گا کہ اگر یہ دونوں فٹ اور فارم میں آ کر ستھرا کھیل گئے تو چُنے گئے15 میں سے کسی کی جگہ لے سکیں گے، کہ اس وقت محمد عامر کو ورلڈکپ والی ٹیم سے بری کارکردگی کے الزام میں ڈراپ کیا گیا ہے اور محمد آصف کو بھی نہیں لیا گیا۔
جہاں تک سلیکشن کمیٹی کی طرف سے ورلڈ کپ کے لئے15کھلاڑیوں کے چناؤ کا مسئلہ ہے تو ماہرین اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں، تاہم ہم نے جو غائر نظر ڈالی تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھول بھلیوں میں ڈال کر جو ٹیم منتخب کی گئی یہی ممکن تھی، مسئلہ صرف دو تین کھلاڑیوں اور سلیکشن کمیٹی کے ساتھ چیف کوچ مکی آرتھر کے سلوک کا ہے کہ ان حضرات نے اپنی پسند کو بعض اہم کھلاڑیوں پر ترجیح دی اور پھر ایک بڑا ڈرامہ فٹنس ٹیسٹ کا کیا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فٹنس فٹنس کھیلتے رہے اوراپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو فٹنس کے بغیر ہی منتخب بھی کر لیا ہے،
اس کی مثال عماد وسیم ہے، جس کے گھٹنے میں تکلیف ہے اور اندیشہ ہے کہ وہ کہیں پہلے ہی میچوں میں پھر مکمل اَن فٹ نہ ہو جائے، اسی طرح کپتان تو کپتان ہوتا ہے اِس لئے سرفراز احمد کو کسی ٹیسٹ کے بغیر ہی پاس کر دیا گیا اور رضوان کو اچھی فارم کے باوجود نہیں لیا کہ سرفراز کسی وکٹ کیپر بیٹسمین کا رسک نہیں لے سکتے، ورنہ کامران اکمل کیا بُرا تھا جسے کیمپ ہی میں نہیں بُلایا گیا، اسی طرح محمد حفیظ کے انگوٹھے کو بھی پوری طرح نہیں پرکھا گیا اور اسے موقع دیا گیا کہ دورانِ قیام برطانیہ مزید صحت مند ہو جائے گا۔
اب اگر عابد علی اور حسنین کو ان کی اچھی کارکردگی کی بنا پر ٹیم میں لیا گیا ہے تو عمر اکمل کے حوالے سے یہ کہا گیا،اس کو آسٹریلیا کے خلاف موقع دیا گیا وہ کلک نہیں کر سکا، جبکہ امام الحق موجود ہیں، حالانکہ آسٹریلیا کے خلاف ان کی کارکردگی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، سلیکشن کمیٹی نے وہاب ریاض کو بھی نظر انداز کیا ہے اور محمد عامر کے ساتھ اسے بھی نہیں لیا گیا ان پر جنید خان کو ترجیح دی گئی، جو آخری اووروں میں اچھا باؤلر ثابت نہیں ہوا تھا، اب موجودہ صورتِ حال میں اگر محمد عامر انگلینڈ کی وکٹوں پر فارم حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے ہی قربانی دینا پڑے گی کہ محمد عامر بہرحال بہت تجربہ کار ہو چکا، اس کے مقابلے میں جنید خان کا نمبر نہیں آتا، جبکہ حسنین کو اُس کی رفتار کے باعث چنا گیا کہ وہ انگلینڈ میں تیز تر گیند بازی سے بہتر نتائج دے سکتا ہے، حالانکہ وہ ابھی نو عمر اور ناتجربہ کار ہے، اس کا ثبوت آسٹریلیا کے خلاف ملا۔
یوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر اہم میچ کھیلے گا اور اسے بڑے گرگوں کی بجائے چھوٹی ٹیموں سے مقابلہ کرایا جائے گا۔ شاہین آفریدی اچھی سوئنگ کرتا ہے،اب یہ کپتان پر منحصر ہو گا کہ اسے سنبھال کر استعمال کرے۔ ایسے میں حسن علی پر ہی قسمت مہربان لگتی ہے کہ اب اسے تجربہ بھی ہو چکا ہے۔تاہم محمد عامر اور وہاب کی کمی تو محسوس ہو گی، اگرچہ کرکٹ میں چانس کی بھی بات ہے، شاہین آفریدی کی سوئنگ کے حوالے سے اس کی کامیابی سے پُرامید ہیں تاہم حسنین کی قسمت کے ستارے کی بھی بات ہے، نوجوان ہے، عمر پڑی ہے اچھا باؤلر ہے، سنبھل کر چلا تو لمبا کھیلے گا۔
یہ سب اپنی جگہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے بہت دلائل دیئے ہیں، اس کے باوجود دیکھنا ہو گا کہ کھلاڑی کیسا کھیلتے ہیں، خود کپتان سرفراز احمد کی اپنی فارم ڈانوا ڈول ہے، شائقین اس سے کیپٹن والی اننگ کی توقع رکھتے ہیں، کب پوری ہو گی، جہاں تک بورڈ کے ان اجارہ داروں(معہ چیف کوچ)کا تعلق ہے تو انہوں نے ٹریننگ کیمپ ہی سے ڈنڈی مار کام شروع کر دیا تھا، سلیکشن نہ ہونا الگ بات ہے، کیا وہاب،احمد شہزاد، کامران اکمل اور عمر اکمل اِس قابل بھی نہیں تھے کہ ان کو کیمپ ہی میں بُلا لیا جاتا،لیکن یہاں تو فیصلے پہلے سے تھے جو اب ٹیم کے چناؤ سے نظر آ گئے ہیں ورنہ فٹنس والا بہانہ تھا اگر یہی حقیقت ہوتی تو عماد وسیم،حارث سہیل اور محمد حفیظ ٹیم میں نہ ہوتے، بورڈ کی اصل پریشانی یہ ہے کہ ان کو بیٹسمین نہیں مل رہے،
نہ ہی اچھا اور مسلسل کارکردگی والا سپنر ملا ہے، اسی لئے شاداب اور عماد پر بھروسہ کیا جا رہا ہے جو عالمی سطح کے سپنر تو نہیں ہیں، جبکہ سلیکشن کمیٹی کے سر پر فاسٹ باؤلنگ کا پہاڑ ہے، اس شعبہ میں بہت نوجوان سامنے آئے ہیں، اور ان میں چناؤ مشکل ہو رہا ہے،اِسی لئے تو محمد عامر پر بھی تلوار چل گئی ہے، اب اس کی قسمت یاور ہوئی تو وہ انگلینڈ کے خلاف ٹیم کو فتح دِلانے میں اہم کردار ادا کرے گا ورنہ پھر کلب کرکٹ ہی کھیلا کرے گا ۔
ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ کپتان محکمانہ کرکٹ کو برداشت نہیں کرے گا کہ یہ عبدالحفیظ کاردار (مرحوم) کا کارنامہ ہے اِسی لئے یہ سلسلہ ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ فی الحال بورڈ میں بغاوت ہو گئی ہے تاہم اقتدار کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں،کپتان اب بااختیار ہیں اِس لئے وہ کامیاب ہوں گے اِس لئے ہم تو یہ گزارش کریں گے کہ کھلاڑیوں کو بے روزگار کرنے سے پہلے ریجنل کرکٹ ڈھانچہ تو بنا لیں اور ان میں سنٹرل کنٹریکٹ کے قواعد بھی مرتب کرا لیں، پھر ان کو فنڈز دیں تاکہ جو کھلاڑی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتے وہ کچھ تو وصول کریں ورنہ تو کوئی اور ہی مزدوری کریں گے، کرکٹ تو نہیں کھیلیں گے۔