نئی معاشی پالیسیاں اور معیشت

نئی معاشی پالیسیاں اور معیشت
 نئی معاشی پالیسیاں اور معیشت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں، جوں جوں وقت گزر رہا ہے، معاشی پنڈت حالات کی بھیانک شکل ہی سامنے لا رہے ہیں۔ کچھ تو موجودہ حکومت کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا ر ہے ہیں، مگر یہ سب کہنے سننے کی باتیں ہیں، حالات کی اس سنگینی کی پی ٹی آئی حکومت ذمہ دار نہیں، ذمہ دار وہ لوگ ہیں۔۔۔ جنہوں نے معیشت کا خون نچوڑ کر ڈھانچہ موجودہ حکومت کے حوالے کیا۔ اب اُس ڈھانچے کو پھر سے چلنے کے قابل بنانے کے لئے وقت تو درکار ہو گا۔

سابقہ حکومتیں معاشی حالات کے اس قدر خراب ہونے کی ذمہ دار ہیں۔ ایڈہاک پالیسیوں کے ذریعے اور بے دریغ قرض لے کر معیشت کو چلانے والے، ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنڑول کرنے والے اور ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے دعویدار معیشت کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ ملک میں فوجی حکومتیں بھی آئیں، لیکن معاشی حالات اتنے سنگین نہیں تھے، جتنے 2008ء سے لے کر 2018ء تک دس برسوں میں ہو ئے ۔ بے تحاشا قرض لے کر نظام مملکت چلایا جاتا رہا۔ بھار ی شرح سود پر قرض لیا گیا ،اتنا قرض سابقہ حکومتوں نے 1947ء سے 2008ء تک 60برسوں میں نہیں لیا تھا جتنا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے گزشتہ 10 برسوں میں لیا۔

ملک کو عالمی اداروں کا مقروض بنا دیا گیا۔ ذاتی مفادات کی خاطر ٹیکس نظام میں بہتری نہ لانے کا نتیجہ ہے کہ ٹیکس کی وصولی انتہائی کم ہے۔ سہولتیں نہ ہونے اور مشکل ترین ٹیکس گوشواروں کی وجہ سے وہ لوگ بھی ٹیکس دینے سے ہچکچاتے ہیں جو خوشی سے ٹیکس دینا چاہتے ہیں۔ ماضی میں ایف بی آر کی کارکردگی مایوس کن رہی اور ٹیکسوں میں اُس حساب سے اضافہ نہ کیا جاسکا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔


موجودہ حکومت نے آتے ہی ٹیکس نظام میں بہتری کے لئے فیصلے کئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، گو کہ ٹیکس وصولی میں کچھ کمی واقع ضرور ہوئی ہے، لیکن دوسری جانب ٹیکس گوشواروں کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو ٹیکس گزاروں کا حکو متی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہارہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں نہ صرف ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، بلکہ آنے والے مالی سال میں ٹیکس وصولیوں میں بھی کافی اضافہ متوقع ہے، جس سے بجٹ خسارہ میں کمی آئے گی۔

پی ٹی آئی کی حکومت آنے والے بجٹ میں مزید ٹیکس اصلاحات لانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کام جاری ہے، اگر ٹیکس کے نظام کو آسان بنا دیا جائے تو موجودہ حکومت کی یہ ایک اچھی کوشش ہوگی۔ معاشی پالیسیوں کو ایڈ ہاک ازم پر چلانے کی بجائے حکومت چاہتی ہے کہ ملک کی معاشی بنیادیں مضبوط کی جائیں تاکہ مستقل بنیادوں پر معاشی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔ حکومت کی طرف سے مالیاتی سطح پر سخت مانیٹری پالیسی بھی لائی جا رہی ہے تاکہ منی لانڈرنگ، رشوت، بدعنوانی اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جا سکے۔

حکومت کی طرف سے برآمدات میں اضافے کے لئے بھی متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ برآمدی مصنوعات پرٹیکس میں کافی حد تک چھوٹ دی گئی ہے اور آنے والے بجٹ میں برآمدی پالیسی کو برآمد کنندگان دوست بنانے کے لئے حکومت بھرپور کوششیں کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں تاجر برادری کے نمائندوں سے حکومتی نمائندوں کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور تاجر برادری کے مطالبات اور مشکلات کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ حکومت نے ایڈہاک ازم ختم کر کے حقیقت پسندانہ پالیسیاں متعارف کروانے کا جو فیصلہ کیا ہے قابلِ تحسین ہے، اس سے وقتی طور پر تو عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن بعد میں یہی پالیسیاں عوام کے لئے سہولتیں اور آسانیاں لے کر آئیں گی۔

زراعت ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس شعبے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ مجموعی قومی آمدنی میں اضافہ اس شعبے کی ترقی سے ہی ممکن ہو گا۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی کسان بھائیوں کی مشکلات حل کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے، جن کے نتیجے میں گندم ، مکئی ، گنا اور کپاس کی فصلوں کے نرخ کافی مستحکم رہے۔ گزشتہ ادوار میں سیزن کے دوران گندم کے ریٹ انتہائی کم ملتے تھے، جس کی بڑی وجہ گندم کا غیر ضروری ذخیرہ تھا۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اس مسئلے کی طرف توجہ دی اور فالتو گندم کو برآمد کرنے اور فلور ملوں کو ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے اور آج گندم کا نرخ مستحکم ہے ۔

اسی طرح مکئی کی فصل جو گزشتہ دور حکومت میں 800 روپے من سے کبھی اوپر فروخت نہیں ہوئی تھی، اس سال کاشتکاروں نے 1200 روپے سے 1300 روپے فی من فروخت کی۔ گنا جو گزشتہ حکومت کے دور میں کسانوں کو اونے پونے داموں فروخت کرنا پڑتا تھا اور کبھی 150روپے من سے اوپر نہیں گیا تھا، اس سال 200روپے من فروخت ہوااور حکومت نے کسانوں کو گنے کی قیمتوں کی ادائیگی کو بھی یقینی بنایا جس سے کسان بہت خوش نظر آیا۔ جنوبی پنجاب میں، جو ہماری کاٹن بیلٹ کہلاتی ہے ، کپاس کے نرخ کبھی0 200 سے اوپر نہیں گئے تھے، لیکن اس سال کسانوں نے0 400 سے اوپر فی من کپاس فروخت کی اور جائزمنافع کمایا۔

یہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہی ہے کہ کسانوں کو ان کی قیمتوں کا جائز معاوضہ مل رہا ہے۔ عوام کو اپوزیشن کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے، کیونکہ اپوزیشن احتساب کی وجہ سے حکومت کی معاشی طور پر ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ آنے والا بجٹ عوام کے لئے نوید کی ایک کرن ہوگا، جس میں حکومتی معاشی پالیسیوں کے واضح خدوخال نظر آنا شروع ہو جائیں گے اور ان پالیسیوں سے عام آدمی کو ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -