ایوب خان کا مضحکہ خیز ’’صدارتی نظام‘‘

ایوب خان کا مضحکہ خیز ’’صدارتی نظام‘‘
 ایوب خان کا مضحکہ خیز ’’صدارتی نظام‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے کچھ ہی عرصے کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے یہ بحث شروع ہو گئی کہ پا کستان کے مسائل کا حل ’’صدارتی نظام‘‘ ہی میں ممکن ہے۔ حیرت ہے کہ2018ء کی انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جما عت نے اپنے منشور اور پرو گرام میں پا رلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی بات نہیں کی ۔ مگر اب ایسا کیا ہو گیا کہ کئی حلقوں کی جانب سے صدارتی نظام کو اپنانے کی بات کی جارہی ہے۔اگرچہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی ملک میں صدارتی نظام لانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان خبروں کو افواہ قرار دے دیا ہے مگر اس کے با وجود بعض سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ اخبارات اور میڈیا میں بھی صدارتی نظام کو لے کر بحث کی جا رہی ہے۔


پہلی بات تو یہ ہے پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام ،انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں اور ان دونوں نظاموں میں خامیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی،تاہم کسی بھی سیاسی نظام کو اپنا تے ہوئے کئی حقائق کو سامنے رکھنا پڑتا ہے، جیسے کیا یہ سیاسی نظام ، اس سماج کے کے لئے قابل ہو گا، کیا یہ نظام اس ملک کے عوام کے سماجی رویے کے مطابق ہے؟ کیا یہ سیاسی نظام ، اس سماج کے تہذیبی اور ثقافتی رویوں سے میل کھا تا ہے یا نہیں؟جیسے برطانیہ کے عوام صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ برطانیہ کے لئے پارلیمانی نظام ہی موثر ہے، جبکہ امریکہ کے بانیوں نے امریکہ کے لئے صدارتی نظام تجویز کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پا کستان کے لئے کون سانظام موزوں ہے؟۔ پا کستان کے بارے میں سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ پا کستان ، جمہوریت کی پیداوار ہے۔

پاکستان کی پہلی اسمبلی جسے آئین ساز اسمبلی بھی کہا جاتا ہے کا سب سے بنیادی کا م ہی یہی تھا کہ نئی ریاست کے لئے اس کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آئین بنا یا جا ئے۔پا کستان کی آئین ساز اسمبلی کی اکثر یت نے واضح طور پر پا کستان کے لئے پا رلیمانی نظام ہی تجویز کیا۔ غلام محمد اور سکندر مرزا کی محلاتی سازشوں اور کئی سیاستدانوں کی نا اہلی کے باعث پاکستان میں آئین سازی کے کام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے با وجود 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین بنا یا گیا جس میں پا کستان کے لئے پا رلیمانی نظام ہی تجویز کیا گیا ۔اس آئین کے تحت 1959ء میں جو انتخابات ہونے تھے بدقسمتی سے ان کی نوبت ہی نہ آئی اور1958ء میں ما رشل لا نافذ کر دیا گیا۔

1962ء میں جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار کے لئے ایک ایسا آئین دیا جس میں پا کستان کے لئے صدارتی نظام تجویز کیا گیا۔صدر ایوب نے صدارتی نظام کے جواز میں بہت سے دلائل گھڑے۔ ان میں سب سے مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا گیا کہ پا رلیمانی نظام پاکستان کی جغرا فیائی اور موسمی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لئے یہاں پر صرف صدارتی نظام ہی چل سکتا ہے۔پاکستان میں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ایوب خان کے دور کو پا کستان کا ’’سنہرا دو ر‘‘ قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں معا شی ترقی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک کا سیاسی نظام ’’صدارتی ‘‘ تھا۔

ایسا دعویٰ کرنے والے کئی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں ۔ ایوب خان کی معاشی اور صنعتی ترقی کے دور کی بات کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چا ہیے کہ ایوب خان کے دور میں خاص طور پر1958ء سے1965ء کی پاک بھارت جنگ تک پا کستان امریکہ کا انتہائی قریبی حلیف تصور کیا جا تا تھا ۔


آج جب عمران خان جلسے اور جلوسوں میں عوام کو یہ یا د کر واتے ہیں کہ اب پا کستان کے حکمرانوں کی امریکہ میں کو ئی عزت نہیں مگر ایوب خان کے دور میں امریکہ بھی پا کستان کو عزت دیتا تھا تو وہ اس حقیقت کو بھلا رہے ہو تے ہیں کہ ایوب خان نے اس وقت کی سرد جنگ کے زمانے پا کستان کو مکمل طور پر امریکی جھولی میں ڈالا ہوا تھا۔اور اس دور میں امریکہ بھی پاکستان کو بھرپور مالی اور عسکری امداد دے رہا تھا۔جہاں تک ایوب خان کے صدارتی نظام کا تعلق ہے ایوب خان نے اپنے صدارتی نظام اور 1965ء کے صدراتی انتخابات کے لئے جن طبقات پر انحصار کیا یہ وہی جا گیردار اور رجعتی طبقات تھے جو اپنے مفادات کے لئے1954 ء سے1958ء تک غلام محمد اور سکندر مرزا کے اشاروں پر نا چا کر تے تھے۔

بنیا دی جمہوریت کے 80ہزار ارکان پر مشتمل انتہائی مضحکہ خیز ’’صدارتی نظام ‘‘بنا کر ایوب خان نے جمہوریت کا مذاق اڑایا۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کے صدارتی نظام کو دیکھیں تو اس طرح کے ’’بی ڈی‘‘ نظام کی کسی جمہوری ملک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ امریکہ کے صدارتی نظام کو ہی دیکھیں ، امریکہ کا آئین بنانے والوں نے جہاں ایک طرف صدارتی نظام تجویز کیا وہیں اس با ت کا بھی خاص طور پر خیال رکھا کہ انتظامیہ(صدر اور اس کی کابینہ)، مقننہ ( امریکی کا نگرس) اور عدلیہ کے درمیان اختیارات اس طرح سے تقسیم کئے جائیں کہ ان میں سے ہر ریاستی ستون پر ایک طرح کا خاص چیک اینڈ بیلنس قا ئم رہے۔

کئی امریکی صدور اپنے کئی عزائم اس وجہ سے پورے نہیں کر پائے، کیونکہ کانگرس اور عدلیہ نے صدارتی اختیارات کو بے لگام نہیں ہونے دیا۔ بل کلنٹن کا شمار امریکہ کے مقبو ل صدور میں کیا جا تا تھا،اس کے با وجود بل کلنٹن کو امریکی کانگرس نے ’’سی ٹی بی ٹی‘‘ کے معاملے میں بہت مشکل وقت دیا۔موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کی ہی مثال لیجیے، ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں واضح طور پر یہ اعلان کرتے رہے کہ صدر بننے کے بعد وہ میکسیکو کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کر وائیں گے۔ ٹرمپ نے یہ دیوار بنانے کا اعلان کیا اور اس مقصد کے لئے ٹرمپ نے کا نگرس سے5ارب ڈالرز کی رقم مانگی ۔

کا نگرس نے اس معا ملے میں ٹرمپ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور بحران نے اس قدر شدت اختیار کر لی کہ امریکی حکومت کا شٹ ڈاون ہو گیا۔ امریکی آئین میں ریاستی ستونوں کے درمیان ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے نظام کے با وجود امریکہ کے نظام کو بھی مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔امریکہ کے اندر آئین اور سیاسیات کے بہت سے ما ہرین بھی یہ مانتے ہیں کہ امریکی نظام اور خاص طور پر صدارتی انتخابات میں بہت سی اصلاحات کر نے کی ضرورت ہے۔


اصل مسئلہ پارلیمانی یا صدارتی نظام نہیں، بلکہ گورننس ہے۔دنیا کے جن ممالک نے پارلیمانی یا صدارتی نظام کے تحت ترقی کی اس ترقی میں اچھی حکمرانی یا گڈ گو رننس کا کر دار ہی اہم ہو تا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت اپنے آٹھ ما ہ کے دوران اچھی کا رکر دگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔ خراب معا شی صورت حال اس کی سب سے بڑی مثال ہے ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صدارتی نظام آنے کی صورت میں پی ٹی آئی کی کارکر دگی بھی درست ہو جائے گی۔پی ٹی آئی کی حکومت پا رلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی اچھی پرفارمنس دے سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ ملک کے قیام کے 72سال کے بعد ایسی بحثوں سے گر یز کیا جا ئے جن کا کوئی حاصل ہی نہیں۔

پارلیمانی نظام ہی پا کستان کی قوم کے اجتماعی شعور کا ایک واضح سیاسی اظہار ہے۔پاکستان کے عوام اور سماج کے با شعور طبقات نے اسی نظام کے حصول کے لئے جمہوری تحر یکوں میں حصہ لیا،تاہم ہر نظام میں اصلاح کی گنجائش ضرور موجود رہتی ہے۔پا کستان کے پا رلیمانی نظام میں بھی بہت سی خامیاں ہیں اور ان میں اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے، مگر اس نظام کے اندر اصلاحات کا راستہ بھی خود اسی نظام میں موجود ہے نہ کہ صدارتی نظام میں۔

مزید :

رائے -کالم -