اسد عمر کی ’’ رخصتی‘‘اور حکومتی اعترافِ حقیقت

اسد عمر کی ’’ رخصتی‘‘اور حکومتی اعترافِ حقیقت
 اسد عمر کی ’’ رخصتی‘‘اور حکومتی اعترافِ حقیقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسد عمر تحریک انصاف کے شہ دماغ تھے انہیں نابغہ روزگار کے طور پر پر وجیکٹ کیا جاتا رہا ہے عمران خان صاحب جب کنٹینر پر چڑھ کر حکمرانوں کے لتے لیا کرتے تھے تو وہ ’’مسائل کے حل ‘‘ کے لئے اسد عمر کا نام ضرور لیتے تھے 2018 ء میں حکومت میں آنے سے ایک عرصہ پہلے تک وہ اسد عمر کا نام لیتے تھے کہ یہ معیشت کو ٹھیک کر دیں گے۔اسد عمر بھی حکمرانوں کی پالیسوں پر کڑی تنقید کرتے تھے عمران خان صاحب آئی ایم ایف کے پاس جانے کو گناہِ عظیم سمجھتے تھے اور وہ قرضے کی معیشت پر کڑی تنقید کرتے تھے۔

ٹیکس وصولیوں کو بڑھاکر معاشی استحکام لانے کے دعوے کیا کرتے تھے وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پار ٹی کی معاشی پالیسوں پر بھی کڑی تنقید کرتے تھے حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ 8 ماہ تک آئی ایم ایف کے ساتھ قرض لینے کے لئے مذاکرات میں مصروف رہے، کبھی خفیہ اور کبھی اعلانیہ، آئی ایم ایف پیکیج کو مسائل کا حل قرار دیتے رہے اور آئی ایم ایف سے حتمی طور پر ڈ یل نہ ہونا بھی ان کی ’’کو تاہیوں ‘‘میں شامل قرار پایا ہے۔ عمران خان صاحب سابقہ حکمرانوں کو قرض لینے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے انہوں نے خود آٹھ ماہی دورِ حکمرانی میں 2300 ارب کا قرض لیا ڈالر 120روپے سے 142روپے کا ہو گیا،لیکن معیشت ہے کہ سنبھلنے کا نا م نہیں لے رہی ہے ۔


کار کردگی کے اعتبار سے حکومت کا آ ٹھ ماہی دور انتہائی مایوس کن رہا ہے ۔ سیاسی محاذآرائی کے باعث پارلیمنٹ میں کو ئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکی ۔ اپوزیشن تو دور کی بات ہے حلیف جماعتوں کے ساتھ بھی اعتماد سازی کا فقدان نظر آتا ہے۔ حکومت کے تر جمان جناب فواد چودھری کا تو ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی اور مشن پر ہیں وہ جس انداز میں اپوزیشن پر تنقید کرتے تھے اور تحقیر کرتے تھے اس سے دیکھنے اور سننے والوں کو لگتا تھا کہ وہ شاید حکومتی ترجمان نہیں ہیں ۔

ان کی زبان درازی کے باعث بھی حکومت کا مثبت تاثر قائم نہیں ہو سکا ۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے حکومتی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اس سے پہلے نواز لیگ نیشنل ایکشن پلان بھی پارلیمنٹ سے منظور کر وا چکی تھی جب پی ٹی آئی حکومت کے پا س فوجی عدالتوں کی توسیع کا ایشو آیا تو وہ اس ایشو پر پارلیمنٹ میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔


معاشی میدان میں اسد عمر کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے قوم پر عذاب مسلط کیا۔عام شہری کو رائے سازی کے لئے بڑے بڑے اعداد وشمار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔سٹیٹ بنک کیا کہتا ہے ؟ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی رپورٹ ’’ آؤٹ لک 2019ء ‘‘میں پاکستان کی معیشت بارے کیا لکھا ہے ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کیا کہتی ہے ۔ عوام تو ہر روز ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے حوالے سے حکومتی کارکردگی کا جا ئزہ لیتے ہیں۔

دال ، سبزی، گوشت ، مرچ ، مصالحہ وغیرہ کی قیمتوں کے حوالے سے عام شہری رائے قائم کرتے ہیں ۔ایک اَن پڑھ گھریلوعورت بھی ایک رائے قائم کرتی ہے اور وہ رائے بڑی صائب اور قابلِ غور وفکر ہوتی ہے، کیونکہ وہ روز ’’معاشی ماحول‘‘کا مشاہدہ کرتی ہے۔ تجربہ کرتی ہے اس میں سے گزرتی ہے ۔پھر ہر گھر کا سربراہ مہینے کا بجلی ، گیس وغیرہ کابل ادا کرتا ہے تو اسے پتہ چلتاہے کہ معیشت کہاں کھڑی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی معاشی صحت جا نچنے کا ایک اہم اعشاریہ ہوتا ہے گزرے آٹھ ماہ کے دوران اسد عمر صاحب کی معاشی پالیسوں اور حکمتِ عملیوں نے معیشت کو پستی کے اس مقام تک پہنچا دیاہے کہ جہاں سے آگے مکمل تاریکی ہی تاریکی نظر آ رہی ہے۔


معیشت کا کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں اس پر ’’ناامیدی‘‘اور’’ناکارکردگی ‘‘کے مہیب بادل چھائے نظر آئیں گے ۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ گردشِ ز رکا ایک بہت بڑا فیکٹر تھا، جس کے باعث لاکھوں افراد کو روزگار ملتا تھا حکومت کو ٹیکس بھی وصول ہوتے تھے وہ مکمل طور پر ٹھپ ہو چکا ہے آٹو اینڈ کا ر سیکٹر بھی اہم شعبہ ہے، جس میں اربوں روپے کی گردش کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا وہ بھی سکڑ رہا ہے بینکنگ سیکٹر کی کارکردگی بھی شدید متاثر ہو چکی ہے فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ حکومتی کارکردگی جانچنے کا ایک اور اہم ذریعہ ہے

اس کا حجم گزشتہ سال کے 2.6ارب ڈالر سے گھٹ کر 1.3 ارب ڈالر تک آگیا ہے ترقیاتی کام رکنے اور معاشی سرگرمیوں میں کمی کے باعث درآمدات 2018ء میں 49.6ارب ڈالر سے گھٹ کر 2019ء میں 45.8ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کے حوالے سے چین ہمارا سب سے بڑا پارٹنر ہے۔ گزشتہ سال اس نے 9ماہ کے دوران (جولائی تا مارچ 2018ء) 1.6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی،جبکہ اس سال (جولائی تامارچ 2019ء)چینی سرمایہ کاری کا حجم گھٹ کر 405.8 ملین ڈالر رہ گیا ہے، یعنی اس سال 74.5فی صد کم سرمایہ کاری ہوئی ۔


ہمارے ہاں موبائل فون کی مارکیٹ روزگار کی فراہمی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے پاکستان میں 150ملین کے قریب لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں فون کے لین دین کے ساتھ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔ اسد عمر کی حکمت کاریوں کے باعث یہ سیکٹر بھی تباہ وبرباد ہو چکا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ اس سے حکومتی آمدنی میں بھی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہو سکا، لیکن لاکھوں افراد بشمول کاروباری حضرات اور صارفین سب حکومتی پالیسی کا شکارہو چکے ہیں۔


ہمارے سابق وزیر خزانہ کا کمال یہ رہا ہے کہ وہ خود دُنیا کو معیشت کے دیوالیہ پن کی خبریں سناتے رہے ہیں۔معیشت میں PERCEPTION کی بہت اہمیت ہوتی ہے معاشی نمو اور سرمایہ کاری کے لئے ’’تاثر ‘‘اہمیت رکھتا ہے اگر تاثر درست ہو تو سرمایہ کار رقم لگاتے ہیں ۔ سرمایہ کاری کرتے ہیں اس امید پر کہ ان کی سرمایہ کاری ان کے لئے منافع اندوزی کا باعث بنے گی انہیں نفع ملے گا ۔ حکومت معیشت بارے ’’تاثر‘‘کو مثبت رکھنے کی کاوشیں کرتی ہے، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے معاشی شہ دماغ ہر فورم پر قومی معیشت کے دیوالیہ پن کی باتیں کرتے رہے ہیں 8ماہ تک سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کو نشانہ بنا کر گزارہ کرتے رہے ہیں ۔

سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتے رہے ہیں ۔
حکومتی شہ دماغ اسد عمر صاحب کی کارکردگی آئی ایم ایف کے ساتھ کسی حتمی معاہدے پر نہ پہنچ سکنا اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم پیش نہ کر سکنا ، اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا ۔وہ بالآخر معیشت کو ناامیدی اور ناکارکردگی کی مہیب گہرائیوں مین چھوڑ کر رخصت ہو چکے ہیں۔ یہ حکومتی ’’کارکردگی‘‘ کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کے اثرات سے ٹیم کے کپتان بھی نہیں بچ پائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -