مساجد میں احتیاطی تدابیر کی پابندی یقینی بنائیں
رمضان المبارک کے دوران پنجگانہ نمازوں، نمازِ جمعہ اور تراویح کی ادائیگی کے لئے حکومت اور علما کرام میں 20نکات پر مشروط اتفاق ہو گیا ہے۔ نماز کی ادائیگی سے پہلے مسجد کا صحن کلورین ملے پانی سے دھویا جائے گا،مسجد کا صحن ہو تو ہال کے اندر نماز ادا نہیں کی جا سکے گی، پچاس سال سے زائد افراد، نزلہ،زکام، کھانسی کے مریض مسجد میں نہیں آ سکیں گے، مصافحہ اور گلے ملنے سے گریز کیا جائے گا،ماسک استعمال کرنا لازم ہو گا، مساجد سے ملحقہ سڑک، گلی اور فٹ پاتھ پر نماز ادا نہیں کی جا سکے گی، چٹائی صرف کچے فرش پر بچھائی جائے گی، وضو گھر سے کر کے مسجد میں آنا ہو گا،سحری اور افطاری کے لئے مساجد میں اہتمام نہیں کیا جا سکے گا،شدید متاثرہ علاقے میں شرائط سخت اور فیصلے پر نظرثانی کی جا سکے گی، صف بندی دو نمازیوں کی جگہ چھوڑ کر کرنا ہو گی۔
یہ شرائط کم و بیش وہی ہیں، جو مختلف مکاتب فکر کے علما کے اجلاس میں چند روز قبل طے ہوئی تھیں اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اِن پر عمل درآمد کر کے مساجد میں نماز ادا کی جا سکے گی، اب صدر ڈاکٹر عارف علوی کی صدارت میں علما کرام کی ویڈیو لنک کانفرنس کے بعد جو متفقہ لائحہ عمل طے پایا ہے اگر اُس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو امید ہے مساجد بھی آباد رہیں گی اور عبادت کے لئے آنے والے لوگ موجودہ مشکل حالات میں خالق ِ کائنات کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور اپنی دُعاؤں اور مناجات میں پاکستان، اُمت ِ مسلمہ اور دُنیا بھر کو اِس عذاب سے نجات کے لئے رجوع الی اللہ کریں گے، احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اگر فیکٹریاں، دکانیں، منڈیاں، دفاتر اور دوسرے مقامات کھولے جا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مساجد پر اِن احتیاطی تدابیر کا اطلاق نہ ہو۔وزیراعظم عمران خان روزانہ کہتے ہیں کہ کورونا پھیلے گا،اب انہوں نے 20مئی تک اس کے مزید امکانات ظاہر کئے ہیں اس کے باوجود اگر کاروبار کھولے جا رہے ہیں تو مساجد کو سنگل آؤٹ کر کے لاک ڈاؤن کا پابند نہیں بنایا جا سکتا، علما کرام تو پہلے ہی اعلان کر چکے تھے اب حکومت نے بھی اِس سے اتفاق کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی امید رکھتے ہوئے تمام تر احتیاطیں بھی کرنی چاہئیں۔
کورونا کی وجہ سے عالم ِ اسلام کی مساجد فرض نمازوں کے لئے بھی بند ہیں،رمضان المبارک میں بھی مساجد بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے،نمازِ تراویح بھی گھروں میں پڑھی جائیگی، لیکن ہماری حکومت اور علما کا فیصلہ ہے کہ نمازِ تراویح حسب ِ معمول مساجد میں ادا کی جائیگی۔اگر حالات کی نزاکت کو پیش نظر رکھا جاتا تو شریعت میں نوافل کی گھروں میں ادائیگی کی جو اجازت پہلے سے موجود ہے اس سے استفادہ کر کے نمازِ تراویح بھی گھروں میں ادا کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ وہ نمازِ تراویح گھر پر ہی پڑھیں گے۔سعودی عرب میں ہر فرض نماز کے وقت دکانیں بند ہو جاتی ہیں، لیکن جونہی فرض نماز ادا ہو جاتی ہے دکانیں کھل جاتی ہیں۔رمضان میں تراویح اور صلوٰۃ اللیل کے وقت دکانیں بند نہیں کرائی جاتیں، اس عمل سے فرائض اور نوافل کی درجہ بندی بھی واضح ہو جاتی ہے۔موجودہ حالات میں اگر تراویح مساجد میں ادا نہ کی جاتی تو شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں تھی، لیکن ایک نفلی عبادت کو بھی فرض کے درجے پر پہنچا کر اور مساجد میں حاضری پر اصرار کر کے فہم ِ دین کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
لاک ڈاؤن کے دوران جو مشاہدات سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں اگر زیادہ احتیاط برت لی جائے تو انفرادی فائدے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مفادات بھی حاصل ہو جائیں گے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دیکھا گیا کہ لوگوں نے سماجی فاصلے قائم نہیں رکھے،سڑکوں پر رش بھی نظر آیا، کہیں کہیں تو ٹریفک جام بھی ہوا، ہفتے اور اتوار کے روز لوگ معمول کے مطابق گھروں سے نکلے اور سڑکوں پر ٹریفک بھی زیادہ رہی، حالانکہ اِن ایام میں لوگ عموماً گھروں ہی میں رہتے ہیں،لیکن شاید لاک ڈاؤن سے اُکتا کر انہوں نے باہر نکلنے کو ترجیح دی۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی بھی ہوا میں اڑ گئی، چار چار پانچ پانچ افراد ایک موٹر سائیکل پر سوار نظر آئے،سبزیوں اور پھلوں کی منڈیوں میں بھی سماجی فاصلے کی دھجیاں اُڑائی گئیں،اِس لئے یہ خدشہ تو ہے کہ نمازوں کے لئے مساجد میں آنے والے لوگ بھی پابندیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں،چونکہ یہ تمام تر عمل رضا کارانہ ہے، مساجد میں اگر کہیں پولیس تعینات کی جائے گی تو اس کی نفری بھی محدود ہو گی،اِس لئے نمازیوں کو خود اِس بات کا اہتمام کرنا ہو گا کہ طے شدہ نکات پر سختی سے عمل کیا جائے۔اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جائے تو اُسے نرمی سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ پولیس لوگوں کو ڈنڈے مارنے کی بجائے سمجھائے،یہ تلقین تو اچھی ہے،لیکن پولیس لوگوں کو سڑکوں پر مرغا بنانے سے باز نہیں آتی، ہزاروں افراد کے خلاف دفعہ144کی خلاف ورزی پر مقدمات بھی درج ہوئے ہیں،اِس لئے اِس امکان کو تو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مساجد میں بھی طے شدہ امور کی خلاف ورزی ہو گی۔دِن میں پانچ مرتبہ مساجد کے فرش کو کلورین ملے پانی سے دھونا بھی مشکل کام ہے۔ یہ شرط اپنی جگہ جتنی بھی درست ہو عملاً ایسا ہو نہیں سکتا، جو بڑی بڑی مساجد محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں ہیں،جہاں مساجد کے انتظام و انصرام اور صفائی کے لئے سرکاری عملہ موجود ہوتا ہے وہاں شاید ایسا ہو جائے۔ پورے دن میں ایک دفعہ بھی اگر مساجد دھو لی جائیں تو یہی غنیمت سمجھا جائے گا۔
آج20 اپریل ہے،بعض ”ماہرین“ نے حساب کتاب لگا کر بتایا تھا کہ اس تاریخ تک پاکستان میں مریضوں کی تعداد50ہزار تک پہنچ سکتی ہے اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے،اُن کے اس تخمینے کی بنیاد شاید کوئی لگے بندھے ماڈل تھے،جن کی روشنی میں وہ اس نتیجے پر پہنچے تاہم اللہ رب العزت کے اس احسان کا شکر بھی واجب ہے کہ اُس نے ہمارے مُلک کو اس آفت اور وبا کی تباہ کاریوں سے بڑی حد تک محفوظ رکھا، اگرچہ اب بھی مریضوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے بڑھ چکی ہے اور مزید ٹیسٹوں کے نتیجے میں اضافہ بھی ہو رہا ہے،لیکن پچاس ہزار کے عدد کے مقابلے میں یہ تعداد بہرحال بہت کم ہے اِس لئے وہ سرکاری حکام جو یہ اعداد و شمار پیش کر رہے تھے اُنہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ اُن کے اندازوں کی بنیاد کیا تھی اور خوف کی فضا پیدا کرنے والوں کو اپنی رائے اور اپنے تخمینوں سے رجوع کرنا چاہئے۔
دو روز قبل نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر بعض شہروں میں افسوسناک واقعات دیکھنے میں آئے اور پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوا،پولیس کو شکایت تھی کہ پابندیوں پر عمل نہیں کیا جا رہا اور نمازیوں کا اصرار تھا کہ فرائض کی ادائیگی میں وہ کسی پابندی کی پروا نہیں کرتے۔کوشش یہ ہونی چاہئے کہ رمضان المبارک کے دوران ایسے افسوسناک واقعات کا اعادہ نہ ہو، نمازی خود بھی احتیاط کریں اور مساجد کی انتظامیہ بھی لوگوں کو پابندی کی تلقین کرے اور اُنہیں صراحت کے ساتھ سمجھا دیا جائے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اُن کا اپنا بھی بھلا ہے اور دوسروں کا بھی فائدہ ہے،بے احتیاطی اور لاپرواہی سے گریز کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔چودھری شجاعت حسین نے تو بہت پہلے تجویز پیش کی تھی کہ مسلم دُنیا کے حکمران خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ پر حاضری دیں اور گڑگڑا کر دُعا کریں کہ دُنیا اِس وبا سے محفوظ ہو جائے، حکمران تو نہ جانے ایسا کب کریں، لیکن رمضان المبارک کی قبولیت ِ دُعا کی ساعتوں میں عوام کو خصوصی دُعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے۔