کورونا کیسز کی بڑھتی تعداد اور لاک ڈاؤن میں نرمی، چہ معنی دارد
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے ملک میں کورونا آیا ہے، ہم نے بحیثیت قوم اُسے سنجیدہ نہیں لیا،بلکہ اب تو ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ کورونا کے نام پر ہم سب خود اپنے آپ سے مذاق کر رہے ہیں۔ آج کل تو بالکل ہی ایک مزاحیہ فلم چل رہی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں جہاں لاک ڈاؤن تو موجود ہے،لیکن زمین پر کہیں نظر نہیں آتا۔بازار کھلے ہیں، لوگوں کا رش ہر طرف نظر آتا ہے، فاصلہ رکھنے کی پابندی ہَوا ہو چکی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے کیمرے پکڑے یہ مناظر اپنے چینلز پر دکھا رہے ہیں،مگر آسمان سے ہیلی کاپٹر پر شہروں کا نظارہ کرنے والے چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار کو شاید دکھائی نہیں دیتے۔ ہر باشعور بندے کی سمجھ سے یہ سب کچھ بالا ہے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، اگر لاک ڈاؤن کو اسی طرح ایک مذاق بنانا ہے تو پھر یہ تکلف مول لینے کی کیا ضرورت ہے، کیوں سب کچھ کھول نہیں دیا جاتا کہ جس کی جو مرضی آئے وہ کرے اور حکومت صرف یہ تنبیہہ کرتی رہے کہ گھروں سے باہر نہ نکلیں، کورونا پھیل جائے گا۔ ایک طرف حکومت نے اتنا زیادہ خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے اور دوسری جانب کورونا کو روکنے کے واحد حل،یعنی لاک ڈاؤن کو صرف اجلاسوں کی کارروائی تک محدود کر دیا ہے۔ یہ دوعملی کیا دن دکھائے گی؟
سندھ حکومت کو لاکھ بُرا کہیں اُس کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں کوئی ابہام نہیں رکھ رہی جو صورتِ حال بتاتی ہے اُس کے حساب سے فیصلے بھی کر رہی ہے۔ سندھ حکومت نے حجام، پلمبر،الیکٹریشن اور درزی کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دی، کل مَیں ملتان کے علاقے قاسم بیلہ کے بازار سے گذر رہا تھا، معمول کی طرح رش تھا، دکانیں کھلی تھیں، اتنے میں پولیس چوکی قاسم بیلہ کی ایک گاڑی آ گئی، جس میں چوکی انچارج اور چند سپاہی موجود تھے، وہ ایک ایک دکان کے سامنے کھڑے ہو کر اس کا بورڈ پڑھ رہے تھے کہ وہ کس چیز کی دکان ہے۔ مَیں نے چوکی انچارج سے کہا یہاں تو لاک ڈاؤن کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، کہنے لگا، جناب اتنی زیادہ اقسام کی دکانیں کھولنے کا اجازت نامہ آ گیا ہے کہ اب ہمیں یہ ڈھونڈنا پڑتا ہے کون لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہمیں اگر آج مکمل لاک ڈاؤن کا حکم مل جائے، تو پھر دیکھیں سڑک پر ہُو کا عالم ہو گا۔ کہتا تو وہ بھی ٹھیک تھا۔ اس قسم کے مذاق کی آخر ضرورت ہی کیا تھی۔سندھ حکومت نے ایسا نہ کر کے خود کو اس مذاق سے بڑی حد تک بچا لیا ہے۔
ایک بات جو مجھ جیسے کوڑھ مغزوں کو سمجھ نہیں آ رہی، وہ کورونا کیسوں کی تعداد اور اموات کا گورکھ دھندہ ہے۔ ایک طرف تو ہر روز تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے مرنے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ہم احتیاطی تدابیر کو نرم کئے جا رہے ہیں۔اس کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے، کم از کم میری تو سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ملتان اور لاہور جیسے شہروں میں تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، ایک نشتر ہسپتال ہی سنبھالا نہیں جا رہا، جہاں آئے روز ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور عام مریض کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔شہر کے کئی علاقوں کو بند کرنا پڑا ہے، مگر دوسری طرف حال یہ ہے کہ آپ دن کے وقت بوہڑ گیٹ، حرم گیٹ، چوک شہیداں، قاسم بیلہ، حسن پروانہ روڈ، چوک شاہ عباس، بی سی چوک جیسے علاقوں سے رش کے باعث گذر نہیں سکتے۔ کسی نے ماسک پہنا ہوتا ہے اور نہ کوئی اِس بات کا تردد کرتا ہے کہ اُسے سینی ٹائزر سے ہاتھ دھونے چاہئیں۔ ڈپٹی کمشنر کو اس کی کوئی فکر ہے اور نہ سی پی او کی یہ ترجیح ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندی کرائے۔ سو یہ کیا ڈرامہ چل رہا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔
مجھے تو اپنے کپتان کی باتیں بھی سمجھ نہیں آ رہیں وہ کبھی ہنساتے ہیں اور کبھی رُلا دیتے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے عوام کو مبارکباد دی ہے کہ کورونا اُس رفتار سے نہیں پھیلا، جس رفتار سے پھیلنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی تھیں۔ اندازہ تھا کہ 50ہزار افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہوں گے، مگر صرف آٹھ ہزار کورونا کیسز سامنے آئے ہیں، مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کر ڈرا دیا ہے کہ 20سے 25 مئی کے دوران کورونا بے قابو ہو سکتا ہے،اِس لئے احتیاط کی ضرورت ہے۔20سے25مئی کے دوران ایسا کیا ہو گا کہ کورونا بے قابو ہو سکتا ہے، اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ ایک طرف وہ لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں اور دوسری طرف تقریباً ایک ماہ بعد کی تاریخ دے کر کورونا کے پھیلاؤ سے ڈرا بھی رہے ہیں۔ یہ کیا حکمت عملی ہے، بندہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جائے اس کا اُسے جواب نہ ملے۔اعداد و شمار تو یہ بتا رہے ہیں کہ جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے، کورونا کیسز کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔خاص طور پر پنجاب میں کورونا کیسز بڑی تیزی سے دریافت ہو رہے ہیں اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو انہیں ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز میں رکھنے کے لئے جگہ کم پڑ جائے گی،اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومتیں دباؤ میں ہیں۔متبادل حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکامی کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاجروں نے دھرنے دینا شروع کر دیئے، علمائے کرام نے اپنا دباؤ ڈال کر مساجد میں باجماعت نماز حتیٰ کہ تراویح کی اجازت بھی حاصل کر لی ہے،مگر کیا ہم سب اس تلخ حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ کورونا وبا سے دُنیا میں ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کیا صرف کاروبار یا عبادت کے لئے ہم اپنے شہریوں کی زندگی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔کیا ریاست کو کمزوری کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیا اِن بے احتیاطی فیصلوں سے اگر کورونا کی وبا تیزی سے خدانخواستہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی تو اُس کے بعد ہم سنبھلیں گے؟نیو یارک کے گورنر نے 15مئی کی تاریخ دی ہے، وہ بھی مشروط کہ حالات بہتر ہوئے تو لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے گی،ہمارے تاجر یہ واویلا کر رہے ہیں کہ عید سیزن آ رہا ہے انہیں دکانیں اور پلازے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ کیا بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں تو عید منائی جا سکے گی؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ پہلے دن سے ملک بھر میں کوئی متفقہ پالیسی نافذ نہیں کی گئی۔لاک ڈاؤن کی تعریف پر ہی سب متفق نہیں ہو سکے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام میں کورونا کے حوالے سے سنجیدگی پیدا نہیں ہو سکی۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ کورونا کے نام پر ایک سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آج بھی یہی صورت حال برقرار ہے، ایک طرف کورونا تیزی سے پنجے گاڑھ رہا ہے تو دوسری طرف ہم ایسے لاک ڈاؤن میں نرمی کر رہے ہیں، جیسے ملک سے اس موذی مرض کو دیس نکالا دے چکے ہیں۔ دُنیا میں شاید ہی کسی ملک میں حکومتی سطح پر کورونا وائرس کے حوالے سے اتنا بڑا کنفیوژن ہو، جتنا ہمارے ہاں ہے۔ اللہ نہ کرے یہ کنفیوژن ہمیں کسی بڑے انسانی المیے سے دوچار کر دے۔