سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ایف بی آر کی رپورٹ آنے کے بعد تین اہم ترین سوالات کا جواب مانگ لیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستا ن آن لائن )سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظر ثانی کیس میں سرینا عیسیٰ نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد عدالت نے فائزعیسیٰ سے تین سوالات کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی ہے۔عدالت نے جسٹس فائزعیسیٰ سے سوالات کیے کہ کیا فائز عیسیٰ اہلیہ کے بینک اکاﺅنٹ سے لاتعلق ہیں ، بیرون ملک جائیداد کیلئے بھیجی رقم سے جسٹس فائزکا قانونی تعلق نہیں ، جائیدادیں خریداری کیلئے اخراجات کیے ان کا جسٹس فائزسے تعلق نہیں ؟ ۔
سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج بنا تو دو لاکھ سے زائد تنخواہ جبکہ اس سے پہلے 31 لاکھ ماہانہ کماتا تھا ، حکومت کے مطابق تو آج بھی قانون کی خلاف ورزی کرتاہوں ، میرے کیس میں ایک نہیں تین سوموٹو لیے گئے ، جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا واحد دفاع ہے اہلیہ کے اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ، آپ کہتے تھے کہ اہلیہ کے اثاثو ںکا انہیں سے پوچھیں ، سوالات سے آپ پریشان ہوتے ہیں ،اس پر معذرت خواہ ہوں ، آپ کی بات مانے کیلئے قانونی راستہ آپ کی اہلیہ کے ذریعے ہی بنتا ہے ، آئندہ کوئی بھی جج اپنی اہلیہ سے پوچھے بغیر جج نہ بنے۔
عدالت نے کہا کہ آپ عدالت آنا چاہتی تھیں لیکن آپ کے شوہر نہیں چاہتے تھے ، ،آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنا موقف عدالت میں پیش کیا تھا ، سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنے والد کی وجہ سے عدالت آئی تھی ، سرینا عیسیٰ اپنے مرحوم والد کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں ۔عدالت نے کہا کہ ہمارا مقصد آپ کو اداس کرنا نہیں تھا ۔
سپریم کورٹ کادس رکنی بینچ جسٹس فائزعیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت کی جس دوران جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی دی ہوئی دستاویزات پڑھ چکے ہیں ، مناسب ہو گا کہ مختصر دلائل دیں ، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر کی رپورٹ عدالتی فیصلے کے نتیجے مین آئی ، عدالتی فیصلے میں کیا غلطی ہے وہ بتائیں ۔ سریناعیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے بینک اور ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ میراشوہر تک نہیں لے سکتا ، میرے ٹیکس معاملات ذاتی ہیں،شوہرسے بھی خفیہ ہیں، ایف بی آر کی رپورٹ میری اجازت کے بغیر سپریم کورٹ بھی نہیں دیکھ سکتی ، ٹیکس معاملات پر مبنی ایف بی آر کی رپورٹ تمام ججز نے پڑھی ، خفیہ رپورٹ میرے علم میں لائے بغیر جمع کرواناغیر قانونی ہے ، میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دیکھ سکتی ، چیئرمین ایف بی آر کا رپورٹ پیشکرناغیر قانونی ہے ،ٹیکس ریکارڈ میرااور ایف بی آر کا باہمی معاملہ ہے ، آدھے سچ پر مبنی رپورٹ کاکچھ حصہ لیک کر دیا گیا ، فواد چوہدریاور شہزاد اکبر جیسے لوگ ایک لائن پکڑ کر ڈھنڈورا پیٹیں گے ،سپریم کورٹ سے اپنا بیان واپس لینے کیاستدعا کرتی ہوں۔ جسٹس منیباختر نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے ججزدستاویزات کاجائزہسائل کی مرضی پر لیں ، گزشتہ روزآپاور جسٹس فائزعیسیٰ نے ایف بی آر کی رپورٹ مانگی تھی ۔عدالت نے کہا کہ کسی فریق کو درخواست کرنے پر خفیہرپورٹ نہیں دی جا سکتی ، سرینا عیسیٰ نے کہاکہ رپوٹ کیلئے درخواست نہیں کی ، عدالت نے خود دینے کاحکم دیا ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 5اگست کو 2009 کو جسٹس عیسیٰ جج بنے ، آپ نے پانچ اگست کے بعد کی ٹرانزیکشنز کی وضاحت دینی ہے ،جو رقم لندن منتقل ہوئی وہ فلیٹس کی خریداری کے برابر ہے ، آپ سے ہمدردی ہے لیکن آپ کے شوہر عوامی عہدہ رکھتے ہیں ، دو لاکھ 30 ہزار پاﺅنڈ جنوری 2010 میں تعلیم کی غرض سے منتقل کیا گیا ، آپ نے موقف اپنایا کلفٹن کی اراضی فروخت کی تھی ، آپ نے بیشتر رقم کیش منتقل کی ، جو معلومات دو سال پہلے ملنی چاہیے تھیں وہ آج تک نہیں ملیں ، آپ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بہت کچھ بتا سکتے تھے جو نہیں بتایا گیا ، جسٹس منیب نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ کی معلومات سے بہت سوال اٹھتے ہیں ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو تفصیل دینا ہو گی کہ کون سی جائیداد فروخت کی تھیں۔
سریناعیسی نے کہاکہ عدالتی سوالت کے جواب دینے کی کوشش کروں گی ،جسٹس منصو ر علی شاہ نے کہا کہ آپ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم چیلنج کیا ہے ،حکم برقرار رہا تو آپ کی ایف بی آر سے شکایت متعلقہ فورم پر ہو گی ۔سرینا عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے آفشور کمپنی کو تسلیم کیا تھا ، عمران خان کیلئے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں ، عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں میں نہیں ،میرے خلاف دیا گیا حکم واپس لیا جائے ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو باقاعدہ سماعت کاموقع فراہم کیا جائے گا ،آپ 18 جون 2019 کا اپنا بیان کھولیں ، سریناعیسیٰ نے کہا کہ مجھے کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ میں جج ہوں آپ میرے سوال کا جواب دینے کی پابند ہیں ،عدالتی کارروائی آپ نے نہیں ججز نے چلانی ہے ،