پیوستہ رہ شجر سے!!

میں نے گزشتہ عشرے کے دوران عرض کیا تھا کہ دور غار کے آخری سرے پر جگنو جیسی روشنی نظر آئی ہے دعا کی تھی کہ اللہ یہ امید بر لائے اور میرے اس پیارے پاکستان میں بھی حالات اس قدر تو معمول پر آ جائیں کہ ہم جیسے سفید پوش بھی گزر اوقات کی مجبوری تحمل سے تو برداشت کریں اور یہ غم کہ یوں نہ ہو جائے اور یوں نہ ہو جائے نہ ہو اور ذہنی اطمینان کے ساتھ اپنے کام پر توجہ دے کر کچھ اپنی فیملی کا بھی دھیان کر سکیں، اس توقع والی تحریر کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ میری نظر نے شاید دھوکا کھایا مجھے غلط تسلی ہوئی ہے لیکن یہ شاید اسی ذات باری کا کرم ہے جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان اور مستقبل ہے کہ تمام تر خدشات اور جاری محاذ آرائی کے باوجود حالات مثبت صورت اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیع تر اتفاق رائے سے ملک میں عام قومی انتخابات کی تاریخ طے ہو جائے گیا ور پھر جسے اللہ دے اور عوام چاہیں گے اسے اقتدار بھی مل جائے گا۔
یہ صفحات گواہ ہیں کہ میں حتی الامکان عدلیہ اور افواج پاکستان کے ملکی (سیاسی) کردار کے حوالے سے لکھنے سے گریز کیا حالانکہ جو شکوہ اب مولانا فضل الرحمن نے کیا اس بارے میں تبھی علم ہو گیا تھا جب مولانا نے پشاور موڑ والا دھرنا ختم کیا تھا اور یہ سب اچانک محسوس ہوا کہ ایک رات مولانا بھی پہاڑی کے عقب سے ہو آئے تھے اور اب انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل (ر) فیض کے ساتھ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے وعدہ کیا اور یقین دلایا تھا کہ مارچ میں عام انتخابات ہوں گے لیکن بعد میں ان حضرات نے اپنا کہا پورا نہ کیا اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اس کے بعد پھر وہ موقعہ آیا جب گزشتہ برس مولانا اور آصف علی زرداری متحرک ہوئے اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سلسلہ شروع ہوا اور جنرل (ر) باجوہ کے حوالے سے غیر جانبداری کی خبروں کا اہتمام کیا گیا تب حضرت فضل الرحمن کے حلقے وثوق سے کامیابی کے دعوے کر رہے تھے تب میں نے کوشش کی کہ مولانا سے ملاقات ہو اور ان سے تبادلہ خیال ہو تو اپنی رائے دوں کہ وہ حضرات ڈبل کراس ہو رہے ہیں لیکن ان سے ملاقات مشکل ہو گئی اور معتمد حضرات کے ذریعے پیغام ان تک نہ پہنچ سکا اور پھر وہ سب ہوتا چلا گیا جو اب تک ہمارے سامنے ہے اور اب تو عمران خان نے اتنا کچھ کہہ دیا کہ لوگ اپنی تصحیح بھی کر رہے ہیں اور ثابت ہو گیا کہ ایسٹیبلشمنٹ کس حد تک دخیل تھی اور بقول زرداری صاحب جنرل باجوہ نے یہ تاثر بھی دیا کہ وہ پانچ منٹ میں مارشل لاء لگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ میں جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بات ایک بار پھر گھوم کر عدلیہ کی آزادی کی طرف آ گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو ہوا جتنی تنقید ہوئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی میری پیشہ ورانہ زندگی کے تجربے کے حوالے سے ذاتی رائے اور تحفظات ہیں نہ تو میں نے ان کا اظہار کیا اور نہ کروں گا کہ اور کچھ ہو نہ ہو اس دور جدید میں عدلیہ ایک ایسے کنارے یا ساحل کی صورت نظر آتی ہے جو ہمیں مشکلات سے نکال سکتی ہے اور اب بھی ایسی ہی توقع کرتا ہوں اگرچہ حالیہ دنوں میں بہت کچھ ہوا ہے اور ہو بھی رہا ہے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا کہ مجھے اب بھی اسی طرف سے راستہ نکلنے کی توقع ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری جب بھی متحرک ہوں ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں گرم ہو جاتی ہیں اور اب بھی انہوں نے اچانک اپنی جماعت کے ایم راہنماؤں کو بلایا اور پارٹی میں نئی روایت پیدا کر دی کہ اعلامیہ میں اسے کور کمیٹی کی میٹنگ کہا گیا۔(کبھی ایسی میٹنگ کو ”کچن کابینہ“ کی میٹنگ کہا جاتا تھا۔) اس میں انہوں نے یکایک مذاکرات کی اہمیت پر لیکچر دے کر اپنی طرف سے مہم شروع کرنے کی ہدایت کر دی کہ پہلے ہم خیال اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی جائے اور ایک لائحہ عمل مرتب کر کے اپوزیشن سے مذاکرات ہوں، اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی سہ رکنی کمیٹی نے یہ سلسلہ شروع بھی کر دیا اور پی ڈی ایم کی جماعتوں سے مذاکرات نے مثبت اشارے دیئے، تاہم اس سلسلے میں بھی کپ اور لب کے فاصلے والا معاملہ ہوا جب ان کو جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا ہوا کہ مذاکرات سے انکار کئے بغیر مولانا کا موقف ہے کہ عمران خان سے بات نہیں ہو سکتی کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ یوں ان کی رائے مسلم لیگ (ن) سے ہم آہنگ ہوئی جو مذاکرات سے انکار نہیں کرتی لیکن اپنے موقف سے بھی ہٹنے کو تیار نہیں۔ اب گزشتہ روز ایوان وزیر اعظم میں پی ڈی ایم جماعتوں کا جو اجلاس ہوا اس میں کھل کر رائے دی گئی اگرچہ مذاکرات سے انکار نہیں کیا گیا لیکن عمران خان کے حوالے سے اختلاف ضرور ہوا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی بھی میدان میں اتری ہے جو باہمی مذاکرات کے حق میں ہے اور شاید اسی حوالے سے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والا سلسلہ ہو جائے اگرچہ جماعت اسلامی کے حوالے سے گول میز کانفرنس کی اطلاع کے بعد اے این پی نے بھی ایسی کانفرنس کا عندیہ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے کامیابی کب ملتی اور میز کہاں اور کب سجتی ہے۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے اور شجر سے پیوستہ رہ کر بہار کی امید رکھنا چاہئے۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اب ادھر سے بھی اگر مگر کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ہے اور مجھے تو یہ توقع ہے کہ اب بات بن جائے گی اور اکتوبر کے بعد پورے ملک میں قومی اور صوبائی انتخابات کرنے پر سب راضی ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے اور کچھ نہیں کہنا چاہئے اور احتیاط کا دامن تھامے رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ایک نظر اپنے محترم چودھری اعتزاز احسن کے طرز عمل پر ڈالنا ضروری ہے کہ وہ یکایک پھر سے ریاست کو ماں جیسی بنانے کے لئے سرگرمی دکھا رہے ہیں اور عدلیہ آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ وہ خود آج کل کافی کمزور نظر آتے ہیں۔ لیکن جذبہ جوان نظر آتا ہے پہلے تو ان کو حالیہ سیاسی وابستگی کی وضاحت کر دینا چاہئے تھی کہ ابھی تک وہ پیپلزپارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں نہ تو جماعت کی طرف سے کچھ کہاگیا اور نہ ہی خود انہوں نے کوئی وضاحت کی اس لئے ان کے حوالے سے خوامخواہ کی چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اس دور میں قومی سطح پر جو تقسیم نظر آتی ہے وہ وکلاء میں بھی ہے اور اب شاید وہ صورت پیدا نہ ہو جو ماضی والی تھی۔ محترم اعتزاز احسن سے پیپلزپارٹی والے سوال کر رہے ہیں کیا بھٹو کی سزائے موت اور سپریم کورٹ سے اپیل کے فیصلے کا بھی احترام درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ مہم کیسی؟