کتاب دوستی اور شجر پروری کا موسم
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کتاب اور شجر میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔کتاب لکھنے والے آدمی کی شہرت اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کی کتاب پڑھی جاتی ہے۔اسی طرح شجر لگانے والا شخص بھی اس وقت تک لوگوں کی دعاوں میں شامل رہتا ہے جب تک لوگ اس کے لگائے ہوئے شجر سے فیض اور ثمر پاتے رہتے ہیں۔کتاب نئے خیالات کا ثمر تقسیم کرتی ہے اور شجر ساری عمر زبان کو ذائقے سے آشنا کرنے والا ثمر بانٹتا ہے۔کتاب جہالت کی دھوپ میں علم کی چھاوں بن جاتی ہے اور شجر تھکے ماندے مسافروں کو سکون دیتا ہے۔کتاب بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ دکھاتی ہے اور شجر اس راستے کو حسین تر بنا دیتی ہے۔جس طرح کتابوں میں نوع بہ نوع افکار کے پھول کھلتے ہیں اسی طرح اشجار رنگ برنگ پھولوں کو اپنے دامن میں لیے کھڑے رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ کتاب دوستی اور شجر دوستی کا زور کبھی ٹوٹ نہیں پایا۔جتنی محبت لوگ کتاب سے کل کرتے تھے،اتنی ہی آج کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کتاب دوستی کی شدت میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔شجر دوستی کا جذبہ بھی روز بروز زور پکڑ رہا ہے۔ابھی چند روز قبل پورے پاکستان میں جنگلات کا عالمی دن منایا گیا۔اس بار یہ دن ایک نئے جوش اور جذبے سے منایا گیا۔اس کی وجہ شاید سوشل میڈیا کے ذریعے سے پیدا ہونے والا وہ شعور ہے جس نے لوگوں کے اندر شجرکاری کی ضرورت کا شدید احساس پیدا کیا۔پچھلے چند برسوں میں اگر کہیں ایک شجر پر آرے چلائے گئے تو سوشل میڈیا نے اس بے رحمی پر آواز اٹھائی۔مسلسل احتجاج کیا گیا۔ملتان میں ایک ہاوسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے آم کے سیکڑوں شجر کاٹ دیے گئے تو لوگوں نے اس ناروائی پر صدائے احتجاج بلند کی۔
پھر یہ بے رحمی سے کیوں کاٹ دیے جاتے ہیں
کوئی نسبت ہے درختوں کو اگر ماوں سے
یادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب لوگ شجر دشمنی کے خلاف فقط آواز نہیں اٹھاتے بلکہ شجرکاری میں اپنا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم پاکستانیوں نے پچھلے چند برسوں میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سموگ کی شکل میں سامنے آنے والی قیامت خیز اور جان لیوا آلودگی نہ صرف دیکھی ہے بلکہ اسے بھگتا بھی ہے۔انسانی صحت کے لیے یہ آلودگی کتنی مضر ہے؟ اس کا احساس اب ہر پاکستانی کو ہو چکا ہے۔
پچھلے چند برسوں سے ہم اپنی خامیوں کو یوں اچھالنے لگے ہیں کہ ہمارے دشمنوں کو ہمارے بارے میں کچھ کہنے کی اب ضرورت ہی نہیں رہی۔یوں لگتا ہے جیسے ہم دنیا کی سب سے کم تر قوم بن کر رہ گئے ہیں۔نہیں جناب نہیں! ایسا ہرگز نہیں۔ابھی چند روز قبل جنگلات کے عالمی دن کے موقعے پر چھانگا مانگا اور گرد و نواح کی آبادیوں کے لوگوں نے ایک منٹ میں ایک لاکھ دس ہزار پودے لگا کر یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم اب بھی ایک ہجوم سے قوم بن سکتے ہیں۔انھوں نے عملی طور پر علامہ اقبال کے اس خیال کی تائید کی کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی! میں شجر کاری کے حوالے سے کچھ لکھتا ہوں تو یہ بات ضرور لکھتا ہوں کہ شجر کاری کے ساتھ ساتھ شجر پروری کی بھی ضرورت ہے۔اب لوگ چونکہ آلودگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود میدان عمل میں نکلے ہیں اس لیے مجھے امید ہے کہ اپنے لگائے ہوئے پودوں کی وہ اس وقت تک دیکھ بھال کریں گے جب تک وہ چھاوں اور پھل پھول دینے کے لائق نہیں ہو جاتے۔انڈیا کے شاعر ظفر زیدی نے کہا تھا:
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
کتاب دوستی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سوشل میڈیا نے بچوں کے ہاتھ سے کتاب چھین لی تو ماں باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔پنجاب یونیورسٹی نے تقریبا" آٹھ نو برسوں کے بعد اپنے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کی نگرانی میں ایک شان دار کتاب میلے کا اہتمام کیا۔اس میلے کا اہتمام وہ کر ہی نہیں سکتے تھے اگر انھیں ڈاکٹر نبیلہ عمر اور ڈاکٹر ہارون عثمانی کی معاونت حاصل نہ ہوتی۔اس کتاب میلے میں تین دن میں کروڑوں روپوں کی ڈیڑھ لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔پتا نہیں ہمارے کس "کتاب دوست" نے یہ ہوائی اڑائی تھی کہ یہ کتاب دوستی کی آخری صدی ہے۔اس میلے میں بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والے نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی۔ہمارے اشاعتی اداروں نے اس میلے میں سال بھر کی کمائی کر لی۔کتاب لکھنے والے لوگ جب اپنی کتابوں کے مسودے لے کر اشاعتی اداروں کے پاس جاتے ہیں تو پبلشر ان سے پہلی بات یہ کہتے ہیں کہ اب کتاب کون پڑھتا ہے؟یہ بات وہ فقط اس لیے کہتے ہیں کہ مصنف ان سے رائلٹی نہ مانگ لے۔پبلشر کمپوز، ڈیزائنر، پرنٹر،بائنڈر اور پیپر سیلر کو تو رقم ادا کر دیتا ہے لیکن کتاب کے مصنف کو وہ کچھ نہیں دینا چاہتا۔وہ ضابطے میں پانچ سو یا ہزار کتاب چھاپنے کی اطلاع دیتا ہے لیکن اس کے گودام کی کسے خبر ہوتی ہے کہ وہاں اس نے کتنی کتاب چھاپ کر اسٹاک کر لی ہے۔ہمارے یہاں پبلشروں کے دن بدل گئے ہیں لیکن بیش تر مصنفین کرام کی جیبیں آج بھی خالی ہیں۔یہاں میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ وطن عزیز کے دو چار بڑے پبلشر آج بھی مصنفین کو ان کا حق مسلسل دے رہے ہیں۔لیکن باقی کتاب فروخت نہ ہونے کا ڈراوا دے کر مصنف کی کتاب مفت میں ہتھیا لیتے ہیں۔کتاب دوستی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ ہر اتوار کو مال روڈ پر ادیبوں کے مشہور چائے خانے کے سامنے لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار کا چکر لگا کر دیکھیے۔پرانی اور نئی نسل کے ہزاروں لوگ وہاں آپ کو کتابیں خریدتے دکھائی دیں گے۔لیکن اس کے باوجود میں کہوں گا کہ کتاب دوستی کے چراغ کی لو ابھی کچھ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔میلے لگتے رہیں گے تو کتاب پڑھی جاتی رہے گی۔
کتاب اپنی طرف پھر بلا رہی ہے ہمیں
یہ اپنی آنکھ کے آنسو دکھا رہی ہے ہمیں