6ہزار روپے میں استاد.... تنخواہ، معیار اور احتساب

6ہزار روپے میں استاد.... تنخواہ، معیار اور احتساب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app





محترم چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری صاحب کے بے شمار احسن اقدامات و احسانات میں ایک مزید اضافہ ہوا ہے، جو انہوں نے سرگودھا کے ڈی پی ایس سکول کے اساتذہ کی ساڑھے چار ہزار روپے تنخواہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس تنخواہ میں جو مزدور کی بنیادی تنخواہ سے بھی کم ہے، کیسے اچھی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے پیمانے سے یہ تجزیہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اگر اس کو ملکی حالات، حکومتی حکمت و ترجیحات اور معاشرتی رویوں پر پرکھا جائے، حتیٰ کہ بین الاقوامی انتظامی اصولوں پر پرکھا جائے تو عدالت عظمیٰ کا غصہ اور پریشانی آدھا سچ ہے۔ ماہرین انسانی نفسیات و انتظامی امور نے تعلیم، فنی صلاحیت، تنخواہ اور انسانی رویوں کو بڑے قریب سے پرکھا ہے۔ ساٹھ ستر کی دہائی تک لوگوں کا خیال تھا کہ کسی شخص کی پیداواری صلاحیت زیادہ تر اس کی تعلیم پر منحصر ہے، اعلیٰ تعلیم سے اعلیٰ پیداواری صلاحیت و معیار حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد عمرانیات اور تعلیم کے ماہرین نے کہا کہ نہیں تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم اور مہارت کا ہونا ضروری ہے، یعنی اگر ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایف آر سی ایس کرے گا تو اس کی صلاحیت بہتر ہو گی، پھر کچھ پرائیویٹ اداروں نے زیادہ تنخواہیں دے کر پیداوار بڑھانے کی جستجو کی، لیکن معلوم یہی ہوا کہ یہ تینوں انسانوں کو اچھی پیداواری صلاحیت اور معیار نہیں دے سکتے، بلکہ اس کا انحصار انسانی رویے پرہے۔
 ہمارے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ وغیر ملکی تربیت یافتہ اور اعلیٰ تنخواہ یافتہ افسران اس کو اپنی معراج سمجھتے ہیں اور عہدوں کو انعام، لہٰذا وہ کام کی بجائے مراعات و معاشرتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ انتظامی شاخسانے آپ کو ارد گرد ہر پرائیویٹ اور سرکاری ادارے میں نظر آئیں گے، چنانچہ ہمیں انسانی رویوں کو بدلنا ہو گا۔ اس کے لئے جہاں معاشرتی و مذہبی اخلاقیات کا درس ضروری ہے، وہاں معاشرتی و انتظامی سطح پر احتساب اور پیداواری معیار کا مقرر ہونا اور لاگو ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ تنخواہیں بڑھانے سے آرام کرنے کی صلاحیت زیادہ بہتر ہونے لگتی ہے۔ مَیں صوبے کے ایک اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوا۔ میرے گاو¿ں میں سکول نہیں تھا، ایک ہندو حکیم صاحب جو مسلمان ہو کر پاکستان رہ گئے تھے، وہ گاو¿ں اور ارد گرد کے بچوں کو پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ان سے اپنے حکمت داری کے سارے کام لیتے تھے، جھاڑو دینے، گوبر جمع کرنے اور دوائیاں پیسنے سے لے کر مریضوں کی مدد تک سب پڑھائی کی فیس کے طور پر کرنا پڑتا تھا۔
 ایک بار میری والدہ نے مجھے گلیوں سے گوبر چنتے دیکھ کر لکڑی بیل گاڑی پر بھیج دی تو حکیم صاحب نے دادا کی معذرت تک مجھے پڑھانے سے انکار کر دیا، پھر گاو¿ں کے قریب مڈل سکول بن گیا۔ وہاں استادوں کے لئے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی، لیکن مڈل میں ہمارے استاد وظیفہ نہ آنے پر رزلٹ کے بعد خبر لینے گھر پہنچ جاتے تھے۔ وہ راتوں کو سب طالب علموں کو گھر بلاتے اور ساتھ جاگتے، نہ ان کی تنخواہ زیادہ تھی، نہ بونس ملتا تھا، پھر تعلیمی افسران کے دورے عام تھے، جو میلے کاسماں ہوتا تھا، سب اپنی کارکردگی دکھا کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ سیاسی عمل دخل نہیں تھا، سماجی سطح پر استادوں کی عزت و احترام باقی تھا، جو خود اساتذہ نے اپنے وقار و محنت سے حاصل کیا تھا۔ اب وہ سکول ہائی ہو چکا ہے، لیکن چالیس سال بعد میرے اعلیٰ افسر بننے پر اس کو نئے کلاس روم، بجلی و پانی اور دوسری سہولیات حاصل ہوئیں، حالانکہ وہ ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 10کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے غریب طلباءملتان بورڈ میں پہلی پوزیشنیں لیتے تھے، لیکن جب سے ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ اور اساتذہ کی تنخواہ ڈپٹی کمشنر کے برابر ہوئی ہے، اساتذہ کی حاضری کمزور پڑ گئی ہے، توجہ ختم اور نتائج واجبی سے رہ گئے ہیں۔
 میرے ہی گاو¿ں میں پرائیویٹ پرائمری سکول اساتذہ کو 6 ہزار روپے ماہانہ سے 2 ہزار روپے تک تنخواہ دیتے ہیں، لیکن ان کے نتائج حکومت کے سکولوں سے کم نہیں اور عوام کا اعتماد زیادہ ہے۔ گاو¿ں میں بعض سکولوں کے سینئر اساتذہ بڑے انگلش سکولوں کے برابر تنخواہ لیتے ہیں، لیکن ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ پچھلے دنوں پنجاب حکومت میں ایک پرپوزل یہ بھی تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو پرائمری سکولوں میں لگایا جائے اور تنخواہ بھی زیادہ دی جائے۔ گزارش ہے کہ اعلیٰ تعلیم بھی دی جا سکتی ہے، تنخواہ بھی دی جا سکتی ہے، لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ پھر بھی پڑھائیں گے۔ ہمارے ایک سرکاری ادارے میں ایک آفیسر کو ٹریننگ اکیڈمی میں لگا دیا گیا۔ انہوں نے پڑھانے سے ہمیشہ گریز کیا کہ مجھے کون سا حکومت نے اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے، جو مَیں افسروں کو پڑھاو¿ں، چنانچہ حکومت نے اس شرط پر کہ وہ کچھ سال اکیڈمی میں اعلیٰ تعلیم کے بعد پڑھائیں گے ان کو پی ایچ ڈی کے لئے بھیج دیا، لیکن واپس آکر انہوں نے پڑھانے سے انکار کر دیا کہ یہ میرے مرتبے کے مطابق نہیں کہ مَیں پی ایچ ڈی کرکے معمولی لوگوں کو پڑھاو¿ں اور کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
یہی حال حکومت کے بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران اور اساتذہ کا ہے۔ ہزاروں پی ایچ ڈی الاو¿نس لینے والے چند بچے کھچے ریسرچ کے رسالوں کو چند مضامین فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ تنخواہ اور مراعات کا فارمولا اساتذہ میں ہی فیل نہیں ہوا، موجودہ دہائی میں ہم نے ڈاکٹروں، پولیس والوں اور جوڈیشری کو بہتر معاوضہ و مراعات دے کر دیکھ لیا کہ وہ مریض کو قتل اور مظلوموں کی برہنہ پریڈ تک پہنچ گئے ہیں۔ لاکھوں مقدمات التواءکا شکار ہیں، اس لئے کہ دنیا میں اچھی تنخواہ صرف بہتر معیار کی سند نہیں، بلکہ لوگوں میں شعور، معیار اور احتساب کا نظام لاگو ہونے سے بہتر نتائج کا سوچا جا سکتا ہے، کئی اعلیٰ پوسٹیں اعلیٰ مراعات کے ساتھ بنائی گئیں، لیکن وہ اعلیٰ معیار مہیا کرنے کی بجائے سیاسی رشوت کا ذریعہ بن کر رہ گئیں۔ سٹیٹ بینک کے گورنر جناب یعقوب صاحب کے زمانے سے قبل ڈرائیور اور چپراسی کی الاو¿نس ملا کر تنخواہ حکومت کے گزیٹڈ افسر کے برابر تھی، لیکن کئی چپراسی کاروں پر آتے تھے اور ڈریس الاو¿نس لینے کے باوجود یونیفارم نہیں پہنتے تھے کہ کار میں ہتک ہو گی، بلکہ امیر چپراسیوں نے چائے وغیرہ کے لئے آگے پٹواریوں کی طرح سستے ملازم رکھ لئے تھے۔ پی آئی اے کی مثال بھی سامنے ہے۔ لاکھوں کی تنخواہ لے کر یار لوگوں نے ادارے کو عوام کے لئے سزا بنا کے رکھ دیا، کیونکہ احتساب اور خدمت کا معیار ناپید تھا اور ادارے ڈوبنے کے باوجود کسی کا احتساب نہ ہوا، بلکہ جو نااہل بنا کر نکالے گئے تھے، سیاسی حکومتوں نے آسان شہرت کی خاطر ان کو اربوں کے واجبات دے کر بحال کر دیا۔
احتساب اور معیار پرکھنے کی ناکامی کی ایک اعلیٰ مثال تین دہائی پہلے کی لاہور اربن ٹرانسپورٹ کی دی جا سکتی ہے، جو 700 بسوں کے ساتھ کروڑوں سواریاں لاتی، لے جاتی تھی، پھر یونین اور انتظامی مشینری کی ملی بھگت سے یہ گھاٹے میں جانے لگی، لیکن یونین ہر سال جلوس نکال کر سالانہ بونس لیتی رہی ، یوں تاریخ گواہ ہے کہ یہ بسیں ساڑھے تین روپے کلو کے حساب سے کباڑیوں کو سکریپ کے طورپر بیچی گئیں اور حکومتوں نے چند سو نااہلوں کو نکالنے کی بجائے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کر دیا۔
ان ساری گزارشات کا مطلب عدلیہ اور حکومت کی توجہ بین الاقوامی ترقی کے اصولوں کی پاسداری کا مشورہ دینا ہے کہ آپ تنخواہیں ضرور بڑھائیں، لیکن حکومت کے اداروں کو بے روز گاروں کی نذر نہ کریں، بلکہ جہاں تعلیمی معیار ضروری ہے، وہاں خدمت کا معیار بھی مقرر کیا جائے، ورنہ لاکھوں روپے دے کر نقصان کرنے سے انتظامی طور پر بہتر ہے کہ یہی نقصان ہزاروں خرچ کرکے کروا لیا جائے، یہ قوم کے لئے کم بھاری ہو گا، بلکہ حکومت سے گزارش ہے کہ نالائقوں کی وجہ سے حکومت ڈوبتے اداروں کو 300ارب سے زیادہ سبسڈی دے رہی ہے، اس کی بجائے نالائقوں کا ایک قومی ادارہ بنا کر بے روزگاری کے نام پر ان کو گھر بیٹھے تنخواہ دے دی جائے یا ان کو کسی مقامی سوشل پراجیکٹ کا حصہ بنا دیا جائے، اس سے مالی نقصان اور عوامی تکلیف کم کی جا سکتی ہے۔

یہاں ایک اور تجزیہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ پرائیویٹ سکول میں کم تنخواہ پر بہتر رزلٹ کیوں آتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ مقابلہ اور مالکوں کی معیار سے دلچسپی ہے، اسی طرح نوکری بغیر سفارش، بغیر رشوت مل جاتی ہے۔ ٹرانسفر کا خطرہ نہیں ہوتا اور گھر کے قریب ہوتا ہے۔ یہی فائدہ ڈی پی ایس سکولوں میں ہے کہ خود مختاری کی وجہ سے وہاں ڈسپلن اور معیار بہتر ہے۔ ٹرانسفر اور روز مرہ طور پر سرکاری اداروں کی مداخلت کم ہے، جو اساتذہ کو سکون مہیا کرتی ہے، جبکہ سرکاری اداروں میں اساتذہ سرکاری اہل کاروں، سیاسی کارندوں، سرادریوں، امیر والدین کے غلام بن کر زندگی گزارتے ہیں اور اوپر سے احتساب کی غیر موجودگی کے سبب نااہلوں کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں اور عوام کے لئے عذاب!

مزید :

کالم -