شاعر اور پولیس!

شاعر اور پولیس!
شاعر اور پولیس!
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کچھ عرصہ قبل ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدارنے کچھ غیرملکی مہمانوں کے لئے دعوتِ طعام کاانتظام کیا ، جس میں پنجاب پولیس کے ایک سابق سربراہ بھی مدعو تھے۔ گفتگومیں پنجاب پولیس کی بدعنوانی پربات چل نکلی تو سب نے دل کھول کراپنااپنا”حصہ “ ڈالا، جب آئی جی پنجاب نے اپنوں سے ہی اپنی پولیس کے بارے میں مختلف القابات سُنے تو وہ احتجاجاََ اُٹھ کرچلے آئے، جب حکومتی شخصیت نے استفسارکیاتو بتایاگیاوہ آپ کی بات پرناراض ہوکرچلے گئے ہیں، جس پراُنہیں باقاعدہ مناکرواپس لایاگیا۔ جب میں اپنے بھائی کوبراکہوں گاتو شاید 100میں سے 90لوگ بھی اُسے براہی سمجھیں گے، مجھے اپنی اور اپنے خاندان کی کردارسازی خود کرنی ہے، مجھے اپنی غلطی کااحساس کرناہے، اچھائی کی تعلیم دیناہے اور اچھاکام کرناہے۔ اگرمیں اچھائی کے تمام اصولوں کو اپنالوں تو چاہے جس محکمہ میں چلاجاﺅں، میری بہن، میرابھائی جہاں چلاجائے وہ اچھے نشانات ہی چھوڑے گا۔

ہرمحکمہ میں اچھے ،برے، بدعنوان، ایماندار، رحمدل ،ظالم ہرطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ بدقسمی سے پنجاب پولیس ایک ایسامحکمہ ہے جس میں بہت اچھے پولیس آفیسرز بھی ہیں مگروہ محکمہ پہ لگی ”چھاپ “کو ختم نہیں کرپائے اگرچہ اپنے حصہ کے چراغ سبھی نے جلائے ہیں وہ جاوید اقبال صاحب ہوں یاآفتاب سلطان، محمد اسلم ترین ہوں یاراﺅ سردارسبھی نے اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے مگربعض اوقات”نِکاتھانیدار“اپنی تھانیداری کے چکرمیں سارے کئے کرائے پر پانی پھیردیتاہے، لیکن یہ ایک آفاقی رہنمااصول ہے کہ غلبہ اچھائی کاہی ہوگا، بس چراغ جلتارہناچاہیے،دورِ حاضرمیں اس سلسلے کی کڑی ایس ایس پی کیپٹن لیاقت علی ملک صاحب ہیں اور یہ راز مجھ پرتب عیاں ہواجب اُن کی کتاب ”حاصلِ محبت“ میری نظرسے گزری۔ حاصلِ محبت میں جہاں لیاقت علی نے اپنی پاکیزہ محبت اور اپنی محبت سے وابستہ بھولی بسری یادوں کو اپنے مضامین میں خوبصورتی سے پرویاہے وہیں انہوں نے سرکاری نوکری، طوائف ، سیاستدان اور دیگرشعبہ جات کی مجبوریوں اور ظالمین کی چیرہ دستیوں کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیاہے۔کہیں وہ بدمعاش سپاہی پہ بڑاتگڑامضمون باندھ کرسسٹم کی کمزوریوں اور اس نظام کے چلانے والوں کوطمانچہ مارتے ہیں تو کہیں وہ اپنی معصوم محبت کوبیان کرتے ہوئے گلاب کے پھولوں کودیکھ کرمعصوم بچے کی طرح مسکراناشروع کردیتے ہیں۔
 بطورایس ایس پی کیپٹن نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ورکنگ، سیاسی دباﺅ، بیوروکریسی کی چالبازیوں اور غریبوں کے ساتھ تھانہ کلچرمیں روا رکھاجانے والاظالمانہ سلوک ، ان سب رنگ بازیوں اور زیادتیوں کو بھی بے نقاب کیاہے۔ لیکن صرف اتناہی نہیں بلکہ تھانے میں بیٹھے ایس ایچ او کی مجبوریوں ، غنڈوں کی سیاسی سفارشوں اور اس تھانہ کلچرکو تبدیلی کے دعوے داروں کی اندرونی منافقت کوبھی خوبصورتی سے بیان کیاہے۔ اس قدرسچائی، صاف گوئی اور آزادیِ اظہارکی ہمت شاید ہی اس عمرکے اور افسران میں پائی جاتی ہو۔ اسی طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ دیگرمحکمہ جات میں سرکاری ملازمین کے تبادلوں کی اندرونی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مدرسہ، مولوی اور خودکش بمبار، مجھے انصاف چاہیے، خاموش سمجھوتا، ریشماں، دلال، میں اور میں کے علاوہ دیگرکئی اہم موضوعات پر انہوں نے بڑی مہارت اورعرق ریزی سے الفاظ کے چناﺅ کودبنگ اندازِبیاں سمویاہے۔
 ”حاصلِ محبت“ سے پتہ چلتاہے کہ ایک دبنگ پولیس افسرمیںپاکیزہ جذبوں کے اظہارلئے ایک معصوم سابچہ بھی چھپابیٹھاہے۔ اس کتاب کوپڑھنے کے بعد پل بھرکے لئے محسوس نہیں ہوتاکہ یہ اُن کی پہلی تصنیف ہے ، بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ ایک مکمل قلمکاراور زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور گزارنے والافنکاراپنی تمام ترتوانایوں اور رعنایوں کے ساتھ مسندِ محبت پر حاصلِ محبت کاتاج سجائے جلوہ افروز ہے۔ کتاب میں اظہارکو عملی زندگی سے جوڑدیاگیاہے، جس سے تحریر میں حسن نکھرآیاہے۔ مضامین اور کالموں کے ساتھ ساتھ وہ کہیں کہیں اپنے دل کی بھڑاس نظموں اور غزلوں کی صورت میں بھی بیان کرنے کی پوری سعی کرتے نظرآتے ہیں۔
   

مزید :

کالم -