فوجی عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزائیں
پاکستان میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ آئینی ترامیم 18اور 21کے تحت ان فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے ان ترامیم کی منظوری دی گئی اور اس طرح فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آ گیا۔ اس سے قبل ان آئینی ترامیم کے خلاف بار کونسل اور پنڈی بار ہائی کورٹ کے عہدیداران سمیت کئی اور افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائر کی گئیں، جن میں ان ’’ترامیم‘‘ اور ’’فوجی عدالتوں‘‘ کے قیام کو چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم 17رکنی لارجر بنچ نے ان پٹیشنز پر کئی ماہ تک سماعت جاری رکھی ۔ پٹیشنرز اور حکومتی و کلاء نے لارجر بنچ کے سامنے کئی روز تک اپنے دلائل دئیے۔ بالآخر عدالت نے تمام پٹیشنز کو خارج کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کا تاریخی فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ نیشنل اسمبلی یہ ترامیم کرنے کا آئینی و قانونی اختیار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے اور تمام پٹیشنز خارج ہونے کے بعد 9فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں، جس کے لئے حکومت نے باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا۔ اب یہ فوجی عدالتیں فعال ہیں۔ ان میں سے ایک فوجی عدالت نے سانحہ پشاور اور صفورا چورنگی پر رینجرز پر حملہ کرنے والے سات دہشت گردوں میں سے چھ کو پھانسی، جبکہ ساتویں دہشت گرد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے، جس پر پورے ملک میں نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا گیا ،بلکہ لوگوں نے ایک طرح سے انتہائی خوشی محسوس کی۔ خود وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام نہایت باعث اطمینان ہے۔ موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام انتہائی ضروری تھا۔ ان سے دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دہشت گردی کے واقعات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
فوجی عدالت سے اگرچہ 6دہشت گردوں کو سزائے موت سنا دی گئی ہے اور ایک کو عمر قید کی سزا بھی ملی ہے، جن کی سزاؤں کی توثیق جنرل راحیل شریف بھی کر چکے ہیں۔ تاہم ان مجرمان کو اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ جسے وہ آئندہ چند روز میں استعمال کر سکتے ہیں۔
آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ ان مجرمان کو سکول کے گیٹ کے سامنے پھانسیاں دی جائیں تاکہ اُن کے دل ٹھنڈے ہو سکیں، جبکہ دوسرے دہشت گردوں کے لئے بھی یہ پھانسیاں عبرت کا نشان ہوں گی۔ عام شہریوں کی جانب سے بھی یہی مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ ان مجرموں کو سرعام پھانسیاں دینے کا اہتمام کیا جائے۔ جسے ٹی وی پر بھی ’’لائیو‘‘ دکھایا جائے۔ اب دیکھتے ہیں شہید بچوں کے والدین اور عام شہریوں کے اس مطالبے پر حکومت کس حد تک عمل کرتی ہے۔ تاہم فوج دہشت گردوں کے خلاف اس وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ خصوصاً جنرل راحیل شریف کا کردار اس لئے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں سے بھی ہر محاذ پر نبرد آزما ہیں اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں سے، جو ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں، مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ نہ صرف خاتمہ کر دیا ہے، بلکہ انہیں دوبارہ پنپنے کا موقع بھی نہیں مل رہا۔
فوجی عدالتوں کا قیام ایک اچھا عمل ہے، جس کے لئے حکومت اور جنرل راحیل شریف سمیت تمام سیاسی جماعتیں بھی برابر کی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ فوج اور تمام سیاسی اکابرین سمیت عدالت عظمی میں بھی یہ اتفاق نہ پایا جاتا تو فوجی عدالتوں کا قیام کسی صورت ممکن نہ تھا۔ فوجی عدالتیں قائم نہ ہوتیں تو دہشت گردوں کو سزائیں دینے کا تصور بھی قطعی ناممکن تھا۔ اگرچہ ملک بھر میں عدالتی نظام کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے، جن میں انسدادِ دہشت گردی کورٹس بھی اپنا رول ادا کر رہی ہیں، لیکن دہشت گردوں کی بے پناہ دہشت اور خوف کے باعث ان سول عدالتوں کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت کرتیں،کیونکہ دہشت گرد گروپوں کی جانب سے انہیں اور اُن کے فیملی ممبران کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنا ان حالات میں حکومت کے لئے کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔ اِسی لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں سوچا گیا اور اُن کے قیام کے لئے انہیں آئینی تحفظ بھی فراہم کر دیا گیا۔
فوجی عدالتوں کو دو سال کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ ان میں عام نوعیت کے کیس نہیں بھیجے جائیں گے ۔ جو کیس بھی جائیں گے وہ وفاقی حکومت کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔ امید ہے ان فوجی عدالتوں کے قیام سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور دہشت گردوں کے بچنے کا کہیں بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا۔ اس مسئلے میں نواز شریف، جنرل راحیل شریف اور تمام سیاسی جماعتوں کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔
تاہم یہ خیال بھی کیا جا رہا تھا کہ دہشت گرد فوجی عدالتوں کے قیام کا اپنے ہی انداز میں ’’جواب‘‘ دیں گے۔ یہ جواب کسی بڑی دہشت گردی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے اور 16اگست کو ایسا ہی ہوا جب اٹک کے گاؤں شادی خاں میں وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے میں جب خانزادہ صاحب خود وہاں موجود تھے اور لوگوں کے مسائل سُن رہے تھے۔
بڑے عرصے کے بعد پنجاب میں اس قسم کی بڑی دہشت گردی سے دہشت گردوں نے حکومت، فوج اور فوجی عدالتوں کو درحقیقت یہ پیغام دیا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں سے ہرگز مرعوب نہیں۔ اب حکومت ، فوج اور فوجی عدالتوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا پیچھا ہر جگہ اور ہر مقام پر کریں گے اور فوجی عدالتوں میں صرف دہشت گرد ہی سزا نہیں پائیں گے بلکہ اُن کے سہولت کار بھی ان کڑی سزاؤں سے گزریں گے۔
