شجاعت کا پیکر شجاع خانزادہ
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے ایک بار پھر قوم کو نہ صرف متحد کر دیا ہے، بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عمل کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد قوم نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ قبائلی علاقوں میں بھر پور کارروائی کریں، لیکن وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد قوم ایک بار پھر وزیراعظم محمد نواز شریف ،فوج کے سالار جنرل راحیل شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے اس بات کا مطالبہ کرتی آرہی ہے کہ جس طرح قبائلی علاقوں میں کارروائی کی گئی اِسی طرح شہروں میں بھی کارروائی کی جائے اور ہر قسم کے اسلحہ کے خلاف کارروائی کی جائے اور مُلک کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لئے فوج اور پولیس کے ذریعے مہم چلائی جائے ۔شجاع خانزادہ پاکستان کے وہ سپوت تھے، جنہوں نے سیاچن کے محاذ پر اس وقت پہلے دستے کے ساتھ قدم رکھا جب بھارت نے خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاچن پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ۔
یہ ان نوجوانوں کے لئے صرف اور صرف موت کا ایک راستہ تھا، کیونکہ بھارت کے لئے سپلائی لائن موجود تھی، لیکن پاکستانی جوان بے سروسامانی اور شدید سردی اور برف سے ڈھکی پہاڑی پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے پہنچے تھے۔ اس دستے میں شجاع خانزادہ بھی شامل تھے اور یہ ان کا ایک ایسا اعزاز ہے جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ہے ۔شجاع خانزادہ عزم اور محبت کا ایک بڑا نام تھے اور محبت ہی کی وجہ سے شہید ہو گئے، کیونکہ جو بھی ان کے ڈیرے پر آتا یہ ان کا حکم تھا کہ کسی کو نہ روکا جائے، کیونکہ ان کے خاندان کی یہ قدیم زمانے سے روایت چلی آرہی تھی ۔شجاع خانزادہ ہرقسم کی دہشت گردی کے خلاف ایک موثر آواز تھے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چودہ برسوں میں شہید ہونے والے سیاست دانوں اور وزراء میں وہ واحد شخص ہیں، جن کی شہادت پر پوری قوم سوگ میں ڈوبی رہی اور بلوچستان میں بھی ایک دن کا سوگ منایاگیا ۔جب بھی وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو ان کی پارٹی اور دیگر لوگوں کے دباؤ سے آزاد فیصلے کا اختیار مل جاتا تو وہ ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو قوم کے لئے رول ماڈل بن جاتے ۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے وزارت داخلہ کا قلم دان اپنے پاس رکھا تھا اور جب موزوں شخص شجاع خانزادہ کی اہلیت نظر آئی تو ان کو تمام اختیارات کے ساتھ وزیر داخلہ بنا دیا اور پھر دُنیا نے دیکھا کہ زمبابوے کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی دی گئی ۔چینی وفود کو سیکیورٹی دی گئی اور انہوں نے ایسے اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے کہ مُلک دشمن عناصر کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اگر شجاع خانزادہ کا راستہ نہ روکا گیا، تو وہ مُلک دشمن عناصر کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے، توپھر شجاع خانزادہ کو شہید کر دیا گیا ۔شجاع خانزادہ نے فوج میں جس طرح کارنامے سرانجام دیئے اِسی طرح سیاست میں بھی وہ کام کیا جو قوم کی ضرورت تھی ۔
تین مرتبہ حکومت سے وابستہ رہنے کے باوجود کرپشن اور سکینڈلز سے نہ صرف دور رہے، بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ جو باپ کی شہادت کے بعد بھی چٹان کی طرح کھڑے نظر آئے اور یہی وجہ ہے کہ شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد قوم کا دباؤ حکمرانوں پر بڑھتا جارہا ہے اور یہی شجاع خانزادہ کی اہمیت ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے نہ صرف خصوصی اجلاس طلب کیا بلکہ انہوں نے کابینہ اجلاس میں قسم کھائی کہ وہ شجاع خانزادہ کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والوں کو ختم کرنے کے لئے اپنی جان تک لڑا دیں گے ۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف جب کسی کام کا عزم کرتے ہیں تو پھر اس کو پور ا کرتے ہیں ۔شجاع خانزادہ وزیرداخلہ ہوتے ہوئے بھی دیگر وزراء کی طرح پروٹوکول اور غیر ضروری شہرت کے حق میں نہیں تھے اور یہی بے احتیاطی ان کی موت کی وجہ بنی ۔ویسے انسان کو ایک دن مرنا ہے، لیکن شجاع خانزادہ شہید ہو کر زندہ ہیں اور تا قیامت تاریخ میں زندہ رہیں گے ۔شجاع خانزادہ مسلم لیگ(ن)کے لئے ایک ہیرو بن گئے ہیں، کیونکہ مسلم لیگ(ن)جس پر ہمیشہ یہ الزا م لگتا رہا کہ وہ شدت پسندو ں کے خلاف نرم رویہ رکھتی ہے، لیکن شجاع خانزادہ جیسے شخص کی شہادت نے مسلم لیگ(ن)کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ اب وہ بھی کھل کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے شجاع خانزادہ جیسے بہادر شخص کو کھو دیا ہے اور ہم نے بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح قربانیاں دی ہیں ۔