اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ۔۔۔ناموس رسالتﷺ (4)
i۔فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اس مقدمہ کی تفتیش بمطابق قانون بالکل میرٹ پر کرے۔ معاملہ کی حساسیت اس امر کی متقاضی ہے کہ کسی نئی شکایت / درخواست کی صورت میں اس کا ابتدائی انکوائری کے لیے اندراج کیا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔
ii۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) ایک جامع اور مربوط تفصیلی ضابطہ کار وضع کرے جس کے تحت گستاخانہ صفحات / ویب سائٹس کی نشاندہی ہو سکے ، اور بلاتاخیر ضروری اقدامات کئے جا سکیں۔ چیئر مین پی ٹی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایک سائنسی طریقہ کار وضع کریں جس کے تحت عامتہ الناس کو گستاخی رسولؐ اور فحش مواد کے سنگین فوجداری نتائج سے آگاہ کیا جا سکے۔
iii۔سیکرٹری وزارت داخلہ متعلقہ محکموں اور افراد کے تعاون سے ایک پینل / کمیٹی تشکیل دیں جو سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کے خاتمے کے لیے ایک جامع مہم چلائے او ر ایسے افراد کی نشاندہی کرے جو ایسے قبیح جرائم میں ملوث ہیں اور ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
iv۔چونکہ اٹارنی جنرل نے گستاخی رسولؐ وغیرہ اور فحش مواد کی تشہیر جیسے جرائم کو انسدادِ برقی جرائم ایکٹ 2016ء اوردوسروں پر گستاخی کے جھوٹے الزام عائد کرنے کے مرتکب افراد کے حوالے سے قانون سازی کی بابت اقدامات شروع کر دیئے ہیں لہٰذا یہ توقع کی جاتی ہے کہ متعلقہ عہدیدار معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس حکم یعنی 2017۔ 03۔31 سے ایک ماہ کے اندر ضروری اقدامات کریں گے۔
v۔جہاں تک ان پانچ بلاگرز کا تعلق ہے ، جو پاکستان سے جاچکے ہیں ، تو اس معاملے میں ایف آئی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ قانون کے مطابق پیشرفت کرے اور اگر کوئی قابل گرفت شہادت میسر ہے تو ان بلاگرز کو واپس لایا جائے تاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے لیکن اس معاملے میں قانون کے مطابق سلوک کے اصول کو مد نظر رکھا جائے۔
vi۔وزارت داخلہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں کام کرنے والی ایسی این جی اوز کی بھی نشاندہی کریں،جو ملک میں گستاخانہ مواد اور فحش مواد کی اشاعت و تشہیر کے ایجنڈا پر گامزن ہیں ، بلاشبہ ایسی این جی اوز بیرون اور اندرون ملک سے مالی امداد کے ذریعے کام کر رہی ہیں ، تاکہ ایسی این جی اوز کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔"
درج بالا مختصر فیصلہ کی تفصیلی وجوہات زیرِ نظر پیش ہیں۔
6۔ یہ امر انتہائی لائق تشویش ہے کہ ملکِ خداداد میں بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور نام نہاد دانشور انتہائی مکرو ہ فعل کو ایک منظم سازش کے تحت اسلام دشمن ایجنڈا پر عمل پیرا ہوتے ہوے نبی محترم حضرت محمد ؐ کی پاکیزہ و مننّرہ شخصیت پر بے ہودہ، شرمناک اور گھٹیا الزامات لگا کر اْن کے مقام کو کم کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور دوسری جانب Saint Valentine جیسے بدنام اور فحاشی کی علامت کو نوجوان نسل کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے افسوس کہ ریاستی ادارے اور میڈیا بھی اس بھیانک عمل کا حصہ بن چکے ہیں، گستاخی رسولؐ میں تمام حدیں پھلانگ جانے والوں اور ان کی عظمت و توقیر کو تار تار کرنی کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروا ئی کا مطالبہ نحیف جبکہ کسی ردعمل کا شکار ہو جا نے والے کے لئے موم بتیوں کو روشن اور پھولوں کو بکھیر کر میڈیا پر ظلم کا عنوان بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افز ا ئی نہیں کر سکتی لیکن ایسے واقعات اْسی صورت رُک سکتے ہیں جب گستاخی رسولؐ کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانتدارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار۔ پاکستانی قوم کا نبی محترمؐ کی محبت، اْن سے عشق اور تمام رشتوں سے اعلیٰ اور بلند مقام دینا ایمان کی بنیاد ہے جس پر نہ کو ئی مصلحت کام آتی ہے اور نہ ہی کوئی دلیل کارگر ثابت ہوتی ہے۔یہ وہ پُرکیف لذت ہے جس پر کوئی کلمہ گو سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی تضحیک و ہرزہ سرائی کے مسئلہ کو پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بالخصوص اخبارات اور ملک کے ممتاز کالم نگاروں، صحافیوں نے بھر پور انداز میں اجاگر کرتے ہوئے نہ صرف اپنی آواز بلند کی بلکہ قوم کے جذبات کی عکاسی کی۔ اس عدالت میں مقدمہ کی کارروائی کے دوران بھی اہل علم اور دانشور حضرات نے اپنے اپنے طور پر مسئلہ کی سنگینی سے ارباب اختیار و اقتدار کو متنبہ کرنے کی کوشش کی۔الیکڑانک میڈیا میں بھی اس مسئلہ کو شدت کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا اور تقریباًہر نشریاتی ادارے نے اس موضوع پر علماء ، دانشوروں ، مفکرین ، سیاست دانوں اور مختلف طبقوں کے معززین اور بااثر شخصیات کے احساسات ، آرا اور افکار کو مختلف پروگراموں کے ذریعے نشر کیا۔یہ تمام عمل بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مسئلہ نہ صرف مفاد عامہ سے متعلق ہے بلکہ ملک کا ہر مسلمان شہری سوشل میڈیا پر مذموم گستاخانہ مہم پر دل گرفتہ ہے۔
اس دوران صرف چند دنوں میں مختلف اخبارات ، رسائل اور جرائد میں تخریب اور شر انگیزی کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا جس کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ تاہم بطور حوالہ چند اقتباسات نقل کرنے ضروری ہیں تاکہ معروضی حالات و واقعات سے بھی مفاد عامہ کا پہلو اجاگر ہو سکے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے اپنے ’’اداریے‘‘ میں سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی پر متنبہ کرتے ہوئے لکھا :
’’ اظہار رائے کی آزادی کے نا م پر مغرب کے جو حلقے مسلمانوں کی مقدس مذہبی شخصیات کی شان میں گستاخیوں کے ارتکاب کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مؤقف کے بودے پن کو ظاہر کرنے کے لئے پوپ فرانسس کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ اگر تم کسی کی ماں کو گالی دو تو جواباًاپنے منہ پر تھپڑ کھانے کو تیار ہو جاؤ۔ تاہم مسلمانوں کو دل آزاری اور شر پسندی کے مذموم کھیل کے پیچھے چھپے اصل مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے رد عمل کے اظہار کے طریقوں کا تعین کرنا چاہیے۔اس اشتعال انگیزی کا مقصد مسلمان عوام کو پْر تشدداحتجاج پر اکسانا ہوتا ہے تاکہ اسلام کو دہشت گردی کاعلم بردار قرار دے کر بد نام کیا جائے‘‘۔ (جنگ ، 26 مارچ ، 2017ء)
’’نوائے وقت ‘‘ نے اپنے ’’اداریے‘‘ بعنوان ’’سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے ‘‘ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو متوجہ کرتے ہوئے نہ صرف سخت تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے نظام کو وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھا :
’’پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا،انبیاء کرام بالخصوص رسول اکرمؐ، صحابہ کرام اور اولیاء کرام اور اہل بیت(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کی پاسداری حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بد قسمتی ہے کہ نام نہاد ترقی پسند اور لبرل ہونے کے دعویداروں نے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں اسلام اور قابل احترام مذہبی ہستیوں اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین کے تمسخر کو اپنا مشن بنا لیا ہے اور سوشل میڈیا پران کے خلاف توہین آمیز کلمات اور مواد سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکا کر معاشرے میں نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ یہ اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش کے مترادف ہے۔ آزادئ اظہار کے نام پر مقدس ہستیوں کی تضحیک کرنے والوں کی سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں۔ حکومت کو اس کے خلاف سخت تادیبی اقدام اٹھانا چاہیے۔ اب تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ وزارت داخلہ کو سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے نظام کو مؤثر و فعال بنا کر آپریشن ردالفساد کے ذریعے گستاخی کے مرتکب افراد اور ان کے سہولت کاروں کو نکیل ڈالنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پر جاری اس شرمناک مہم کو لگام دی جائے‘‘۔ (نوائے وقت : 29اپریل ، 2017ء)۔۔۔ (جاری ہے)