ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات پرقوم کابھرپورخراج عقیدت

ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات پرقوم کابھرپورخراج عقیدت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (رپورٹ /کامران چوہان )انسانیت اس کرہِ ارض کا سب سے بڑامذہب ہے دل میں مصیبت ومشکلات میں گھرے لوگوں کا دردہوتوآپ انسانیت کی اس معراج کوچھولیتے ہیں جس کی مثال رہتی دنیا تک یادرہتی ہے۔ ایسی ایک لازوال اوربے نظیرمثال جزام(کوڑھ)کے مہلک مرض میں مبتلا مریضوں کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والی جرمن ڈاکٹرمحترمہ رتھ فاؤ نے رقم کی انہوں نے ان لوگوں کوگلے لگایاجنہیں ان کے اپنے پیارے ہاتھ لگانا بھی پسندنہیں کرتے تھے۔ 9ستمبر 1929کو جرمنی میں پیداہونے والی رتھ فاؤ شعبہ طب میں تعلیم مکمل کرکے ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری نامی تنظیم سے وابستہ ہوئیں اس تنظیم کی جانب سے بھارت مدر ٹریسا کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم بھارت کی جانب سے ویزا کے اجرا ء میں سختی کی وجہ سے وہ بھارت نہ جاسکیں ۔انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ پاکستان جائیں اور پھروہاں سے بھارت کا ویزا حاصل کریں کیونکہ ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری کراچی میںآئی آئی چندریگر روڈ سٹی اسٹیشن کے قریب چھونپڑ پٹی میں1955سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری چلارہی تھی ۔پاکستان پہنچنے کے بعدجب ڈاکٹر رتھ نے ڈسپنسری کا دورہ کیا تو وہاں کا منظر دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا کیوں کہ ڈسپنسری میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج صرف پٹیاں کر کے کیا جارہا تھا۔بس یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہندوستان نہیں جائیں گی بلکہ یہیں رہ کرکوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کی خدمت کریں گی جس کے بعد ڈاکٹر رتھ نے اپنی تنظیم کو خط لکھا کہ بھارت کے بجائے ان کا اصل کام پاکستان میں ہے اور وہ یہیں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں ۔تنظیم کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ڈاکٹر رتھ نے اپنا خاندان، گھر اور ملک الغرض سب کچھ چھوڑ کر اپنی ساری زندگی پاکستان میں انسانیت کی خدمت اور کوڑھ کے مرض کے خاتمے میں مگن ہوگئیں1963ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ برنس روڈ پر لیپروسی سینٹر(جزام سینٹر)کی بنیاد رکھی ۔ لیپریسی سینٹر کے قیام کے بعدملک بھر سے مریضوں کی آمدکا سلسلہ شروع ہوگیااور انہیں اندازہ ہوا کہ یہ مرض صرف کراچی تک محدودنہیں بلکہ ملک کے کونوں میں پھیلاہوا ہے پہلے مرحلے میں انہوں نے مقامی لوگوں اور پھرملک کے دیگرصوبوں سے تعلق رکھنے والے پیرا میڈکس کو کوڑھ کے علاج کی تربیت دی مگرانہوں نے تہیہ کررکھا تھا کہ پاکستان کواس مرض سے پاک کرنا ہے اس مشن کومزیدآگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے 1975میں خیبرپختونخوا، 1976 میں بلوچستان اور 1984 میں گلگت بلتستان میں لیپریسی سینٹر کھولے جہاں بلامعاوضہ ہزاروں جزام(کوڑھ)کے مریضوں کا علاج کیا جانے لگا اورآخروہ کردیکھایا1960سے شروع کیا جانے والا مشن 1996ء کوپایہ تکمیل تک پہنچا اورعالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔گو کہ اپنی 36سال کی طویل جدوجہدکے بعدان کی جوانی اب بڑھاپے میں ڈھل چکی تھی،آنکھوں کی بینائی میں بھی وہ طاقت نہیں رہی تھی اوراپنے وطن کوبھی وہ فراموش کر کے پاکستان کواپناوطن اوریہاں کے باسیوں کواپنے وطن باسی بناکرجزام(کوڑھ)سے پاک ملک بناکر دنیا ئے طب کا ایک عظیم ’’کارنامہ‘‘رقم کردیاتھا ۔پاکستان اورپاکستانی عوام کیلئے ان کی خدمات کوہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی حکومتی،سیاسی مذہبی ،سماجی شخصیات بالخصوص عوامی سطح پرزبردست پذیرائی اورانہیں انتہائی قدرکی نگارہ سے دیکھاجاتاتھا۔اس ملک کی دکھی انسانیت پر اپناسب کچھ نچاورکرنے والی پاکستان کی’’مدرٹریسا‘‘نے 10اگست 2017ء کواس جہاں فانی سے کوچ کرگئیں۔ان کے انتقال پر ہرانسانیت سے پیاررکھنے والی آنکھ اشک بارہے ۔ ڈاکٹررتھ فاؤ کی آخری رسومات میں صدر مملکت ممنون حسین ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان ، گورنر سندھ محمد زبیر ، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ ، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی ایم شیخ ، کور کمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز ، آئی جی سندھ ، تینوں مسلح افواج کے نمائندوں ، جرمن سفارت خارنے کے حکام ، صوبائی وزراء سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی ۔ تدفین کے موقع پر پاک فوج کے دستے نے انہیں سلامی دی ان کی میت کوقومی پرچم میں لپیٹ کرفوجی گاڑی میں چرچ پہنچایا گیا جہاں تینوں مسلح افواج کے دستوں نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔انہیں سپرد خاک کرنے کے بعد19توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔بلاشبہ آنجہانی ڈاکٹررتھ فاؤ کی بے مثال خدمات پر پوری قوم ان کی احسان مندہے اسی لئے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کی خدمات پرقوم کی جانب سے بھرپورسرکاری اعزازکے ساتھ تدفین قابل تقلیدہے ۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔اپنی پوری زندگی کو انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردینا عظیم لوگوں کی نشانی ہے ۔ڈاکٹررتھ فاؤ کی زندگی مشعل راہ ہے ۔ان کی تقلید کرکے ہم زندگی کے ہر شعبے میں ایک مثال قائم کرسکتے ہیں ۔حکومت سندھ کا سول اسپتال کو ان کے نام سے منسوب کرنا قابل ستائش ہے ۔وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سندھ حکومت کی تقلید کرتے ہوئے وفاق کے زیر انتظام کسی اسپتال کو ڈاکٹررتھ فاؤ کے نام کرے ۔