وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر48
نوجوانوں پر امام بخش کے کہے کا اثر ہوا اور وہ پرامن طریقے سے واپس چلے گئے۔ بھولو کی ران کے زخم بھرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گیا تھا مگر وہ اپنی ہمت نہیں ہار رہا تھا۔ امام بخش اپنے شیردل فرزند کو چارپائی پر لیٹے دیکھتا تو غم سے اس کا دل بھر آتا۔
’’ابا جی۔ آپ غم نہ کریں۔ آپ کو پریشان دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے‘‘۔ بھولو باپ کو تسلی دیتا۔
امام بخش بھولو کی تیز نظروں سے اپنا دکھ نہ چھپا سکتا تو خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوتا اور باغیچے میں جا کر اپنے دل کا بال آنکھوں سے نکال باہر لیتا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر47 پؑڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہ چند ہفتے بعد کی بات ہے۔ موسم خوشگوار تھا۔آسمان پر کہیں کہیں بادل منڈلا رہے تھے۔ بھولو ضد کر کے حویلی کے باغیچے میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے سب گھر والوں کو اس طرف آنے سے منع کر دیا۔ جب امام بخش نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا۔
’’اباجی۔ میں تنہائی میں پھولوں کے درمیان بیٹھنا چاہتا ہوں‘‘۔
امام بخش نے شاہ زور بیٹے کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ ’’تو بستر پر رہ کر شاعر تو نہیں بننے لگا‘‘۔
’’ابا جی۔ آخر بیٹا تو آپ کا ہی ہوں۔ جس طرح آپ کو شاعروں سے محبت ہے مجھے بھی ہے اور ظاہر ہے جب کوئی شاعروں سے محبت کرتا ہے تو اس کے مزاج میں شاعرانہ مٹی مل جاتی ہے۔ ‘‘
امام بخش فرزند کو آج حد سے زیادہ ہشاش بشاش دیکھ کر مسرور ہو گیا۔
’’تیرے جی میں جو آتا ہے کر لے۔ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔
امام بخش چلا گیا اور بھولو نے اپنی جہازی سائز کی چارپائی پر لیٹ کر اپنی آنکھوں کے اوپر تکیہ رکھ لیا۔سورج کی تیز کرنیں خوشگوار اور نم آلود ہواؤں کے باعث مدہم اور میٹھی ہو گئی تھیں۔ بھولو کو یونہی لیٹے ہوئے آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ اس کی سماعت سے پازیب چھنکنے کی آواز ٹکرائی۔ وہ چونک سا گیا۔ پہلے تو اسے وہم ہوا شاید ہوا میں پھولوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پازیب کی جھنکار پیدا کر رہی ہیں لیکن جب پازیب کی چھن چھن قریب سے قریب تر ہوتی گئی تو اس نے چونک کر تکیہ آنکھوں سے ہٹایا۔
وہ حسن کا شعلہ تھی۔ بھولو اسے دیکھ کر سٹپٹا گیا تھا۔ حیرت سے اس کا منہ کھل گیا تھا اور بے یقینی سے آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔ وہ ایک اجنبی دوشیزہ کو اپنی چارپائی کے انتہائی قریب دیکھ کر پریشانی ہو گیا تھا۔
دوشیزہ کی آنکھوں میں شرارت بھری تھی۔ اس نے اپنی کلائیوں کو آپس میں جوڑا اور چوڑیاں کھنکھناتے ہوئے بولی۔ ’’نہیں پہچانا ناں‘‘۔ اس کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں سے الفاظ کی شیرینی ٹپکی۔
’’تم۔۔۔ آپ۔‘‘ بھولو گھبرا گیا اور جھٹ سے تکیے کا سہارا لے کر بیٹھنے لگا۔ ’’آپ کون ہیں خاتون؟‘‘ اس نے گردوپیش میں ڈرتے سہمتے نظر دوڑائی۔
’’میں کون ہوں‘‘۔ دوشیزہ نے بھولو کی بوکھلاہٹ پر نقرئی قہقہ چھوڑا۔ ’’مجھے تو بڑا مان تھا کہ میرے دیوتا مجھے پہچان لیں گے‘‘۔
’’دیوتا۔۔۔ کون۔۔۔میں ‘‘ بھولو حیرت سے بولا۔ ’’میں اور تمہارا دیوتا۔۔۔ میں سمجھا نہیں اور آپ ہیں کون۔۔۔ ادھر کیسے آ گئی ہیں؟‘‘
’’میں آپ کی پجارن ہوں۔۔۔ رہا سوال یہاں کیسے آئی۔۔۔ تو یہ میرے لئے کوئی دشوار نہیں‘‘۔ دوشیزہ اٹھلا کر بولی۔ ’’بھلا ہوا کا بھی کوئی راستہ روک سکا ہے‘‘۔
بھولو دوشیزہ کی بے باکی پر تپنے لگا۔ آنکھوں سے حیرت کا رنگ اترنے لگا اور تپش بڑھنے لگی۔
’’محترمہ‘‘! بھولو کے لہجے میں سختی پیدا ہو گئی۔ ’’آپ کو یہاں آنے کی جسارت کیسے ہوئی۔ آپ نہیں جانتیں یہاں عورتوں کا آنا معیوب ہے۔ آپ جو بھی ہیں، الٹے قدموں واپس چلی جائیں‘‘۔
’’کیسے چلی جاؤں؟‘‘ دوشیزہ نے مصنوعی خفگی کا لبادہ اوڑھا۔ ’’اتنی دور سے درشن کو آئی ہوں اور کہتے ہیں واپس چلی جاؤں۔ بھلا مہمانوں کو یوں بھی دھتکارا جاتا ہے‘‘۔
بھولو زچ ہو کر اسے دیکھنے لگا پھر ایک دم اپنی نگاہیں نیچے جھکا لیں۔
’’کیوں تاب نہیں لا سکے ناں؟‘‘ دوشیزہ نے ایک بھرپور حملہ کیا۔
’’محترمہ! مجھ سے شاعری نہ کریں‘‘۔ بھولو نے کہا۔ ’’ہم نانک لوگ خواتین سے باتیں نہیں کر سکتے‘‘۔
’’میں آپ کیلئے کوئی غیر نہیں ہوں۔ ذرا نظر بھر کو تو دیکھیں‘‘۔
بھولو نظریں جھکائے بیٹھا رہا اور دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’محترمہ میں آپ کو پہچاننے کی کوشش نہیں کر سکتا۔ خدارا، آپ یہاں سے چلی جائیں۔ اگر کوئی ادھر آ گیا تو خیر نہیں رہے گی‘‘۔
دوشیزہ بھولو کی بوکھلاہٹ سے خوب محظوظ ہو رہی تھی۔ اس نے تو شاید اسے ستانے کا ارادہ کر رکھا تھا پھر نہ جانے اس کے من میں کیا آئی اور اس نے اپنا تعارف خود ہی کرا دیا۔
’’بھولو! میرے دیوتا سمان! میں کملا دیوی ہوں‘‘۔
’’کملا دیوی‘‘۔ بھولو بڑبڑایا۔ ’’یہ نام میں نے کہاں سنا ہے‘‘۔
’’دس سال بعد ملاقات ہو رہی ہے آپ سے۔ ’’کملا دیوی مغموم ہو کر بولی۔ ’’ایک میں دیوانی ہوں جو آپ کے نام کی مالا جپتے نہیں تھکی اور ایک آپ ہیں کہ نام ہی بھول گئے ہیں‘‘۔
کملا دیوی بھولو کے قدموں میں بیٹھ گئی اور پاؤں تھامنے کی کوشش کی۔ بھولو نے غیر ارادی طور پر پاؤں کھینچ لئے۔ جونہی اس نے اپنی زخمی ٹانگ پیچھے کو سرکائی۔ درد کی ایک شدید لہر اٹھی مگر بھولو کمال صبر سے اس کو برداشت کر گیا اور چہرے پر کسی اذیت کی پرچھائیں تک نہ آئی۔
’’کملا۔۔۔ تم پٹیالے سے کب آئی ہو‘‘۔ بھولو نے نظریں جھکائے جھکائے ہی پوچھا اور کہا۔ ’’میرے قدموں میں مت بیٹھو، اٹھو اور چارپائی پر بیٹھ جاؤ‘‘۔
’’نہیں! مجھے اپنے چرنوں میں ہی بیٹھنے دیں‘‘۔ کملا نے کہا۔ ’’میں کل سے یہاں آئی ہوں۔ میری ماتا ساتھ ہیں۔ یہاں میرے ماما جی رہتے ہیں۔ ان کی رہائش بھی کٹڑہ کرم سنگھ میں ہے۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ آپ کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے تو کھینچی چلی آئی‘‘۔
’’کملا۔۔۔تو نے ناچ گانا کیا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ بھولو نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ مجھے چاچا جی نے کہا تو مکمل طور پر ناطہ توڑ لیا‘‘۔ کملا بولی۔ ’’مجھے چاچا جی کی باتیں بڑی اچھی لگی تھیں۔۔۔‘‘
’’تمہاری شادی۔۔۔‘‘ بھولو نے جملہ نامکمل چھوڑا۔
’’دو ہفتے بعد ہے۔ میرا ہونیوالا پتی سات سمندر پار رہتا ہے‘‘۔
’’میری والدہ اور بہنوں سے نہیں ملو گی‘‘۔
’’ملوں گی۔۔۔ مگر کل۔ آج نہیں‘‘۔ کملا دیوی نے کہا۔ ’’میں کسی کو بتا کر نہیں آئی۔ اس لئے واپس جا رہی ہوں‘‘۔
کملا دیوی نے مخمور نگاہوں سے بھولو کو دیکھا تو بھولو خوداعتمادی سے بولا۔ ’’کملا! تمہیں پتہ ہے ہم کس میدان کے کھلاڑی ہیں۔ ایسی نگاہیں بندے کو منزل سے دور کر دیتی ہیں۔آنکھوں میں شرم و حیا ہو تو ایک دوسرے کی عزت بھی بڑھتی ہے اور مان بھی‘‘۔
کملا دیوی کو بھولو سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ وہ اپنی نگاہوں کی بے باکی پر شرمندہ ہو گئی۔ ’’مجھے معاف کر دیں‘‘۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ ’’میں جو ہر وقت آپ کے سپنے دیکھتی تھی آج آپ سے مل کر دیوانی ہونے لگی تھی‘‘۔
کملا کی آنکھوں سے بہنے والا پانی اس کے من کی سیاہی کو دھونے لگا اور وہ سسکیاں بھرتی ہوئی چلی گئی۔
بھولو اسے تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ پھولوں کی باڑ سے پرے حویلی کے بغلی دروازے سے باہر نہیں نکل گئی۔ اس نے سر دوبارہ تکیے پر ٹیک دیا اور زیر لب بڑبڑایا۔
’’بھولو یار! تو نے مولا مشکل کشا کے تھاپڑے کی لاج رکھنی ہے۔ تجھے عورتوں سے دور ہی رہنا ہو گا‘‘۔
سورج کی آخری کرنیں دم توڑ رہی تھیں اور بھولو مختلف وظائف زیر لب پڑھ رہا تھا۔ اپنے ماموں کی طرح اسے بھی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غایت درجہ محبت تھی۔ وہ اپنی صاف ستھری اور بے داغ جوانی کو اللہ کی امان میں دے کر سو گیا۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا جب امام بخش اسے اٹھانے آیا اور اسے اندر لے گیا۔
بستر پر پڑے پڑے وہ بری طرح سے اکتا گیا تھا۔ سارے خاندان کے دل غم و اندوہ سے بھر گئے تھے مگر وہ کاتب تقدیر کے فیصلے کے آگے کچھ بھی تو نہ کر سکتے تھے۔ بھولو خود اذیت کی سولی پر لٹکا ہوا تھا لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا تھا۔ امام بخش پہروں اپنے شیر دل بیٹے کا سر گود میں رکھے بیٹھا رہتا تھا اور گھنٹوں اس کے زخم کی صفائی اور مرہم پٹی میں لگا رہتا۔ سردار بیگم ایک بار پھر بڑے امتحان سے گزر رہی تھی۔ایک ایسا ہی وقت اس نے اپنے بھائی حمیدا پہلوان پر گزرتے دیکھا تھا اور آج اسی عمر میں اس کا اپنا بیٹا بستر علالت پر پڑا تھا۔ سردار بیگم نے بھائی کی صحت یابی اور درازی عمر کیلئے دن رات ایک کر دئیے تھے تو بیٹے کی تیمارداری میں تو انتہائی غمزدہ ہو کر جگ راتے کاٹ رہی تھی۔ ایک شام جب وہ رسوئی گھر میں بیٹھی تھی، بھولو لنگڑاتا ہوا پاس چلا آیا۔ ماں نے دیکھا تو جھٹ سے اٹھی۔ ’’میں صدقے واری‘‘۔
’’ماں جی!‘‘ بھولو قریب آ کر بولا۔ ’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔
’’کیسا فیصلہ میرے لعل! سردار بیگم نے بھولو کی بلائیں لیتے ہوئے لاڈ سے پوچھا۔ بھولو نے والدہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا۔ ’’اماں جی! بس آپ مجھے سہرے باندھ دیں‘‘۔
’’ہائے میں صدقے جاواں! تجھے بیٹھے بٹھائے یہ کیسا خیال آ گیا اور پھر ابھی تیری عمر ہی کیا ہے‘‘۔
بھولو کی آنکھیں شرارت سے بھر گئیں۔ ’’کیوں ماں جی! میں اب بچہ تو نہیں رہا‘‘۔
ماں بیٹے کی رگ رگ سے واقف تھی۔ وہ جان گئی کہ بھولو شرارت کے موڈ میں ہے۔
’’جانتی ہوں تو بچہ نہیں رہا مگر لنگڑا تو ہے ناں‘‘۔ سردار بیگم نے کہا۔
بھولو ماں کی چوٹ پر قہقہ زن ہو کر بولا۔ ’’میری اماں! میں لنگڑا سدا تھوڑی رہوں گا‘‘۔
’’اللہ کرے! اللہ کر‘‘۔ والدہ نے ہاتھ دعا کیلئے بلند کئے۔ ’’میں پروردگار سے گھنٹوں یہی دعا کرتی ہوں خدا تجھے فٹ سے صحت مند کر دے‘‘۔ بھولو اپنی ماں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ وہ روزانہ اسی وقت ماں کی قدم بوسی کیلئے حاضر ہوتا۔ دراصل وہ اپنی غمزدہ ماں کو اپنی زندہ دلی سے مسرور رکھنا چاہتا تھا۔
(جاری ہے)