قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 45
محمد علی فریدی صرف قوالی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ریکارڈوں کیلئے گیت بھی گاتے تھے۔ میں یہاں سمن آباد ہی میں پرانے مکان میں رہتا تھا تو ایک دن دوپہر کے وقت مجھے پتا چلا کہ کوئی آدمی ملنے کیلئے آیا ہے۔ نام پتا کروا یا تو نوکر نے بتایا کہ ان کا نام محمدعلی فریدی ہے۔ میں یہ نام سن کر چونکا۔ باہر نکل کے دیکھا تو باہر ایک لمبی داڑھی والا آدمی کھڑا تھا۔ اب میں نے انہیں ان کی جوانی میں دیکھا تھا۔ وہ کلین شیو ہوتے تھے اور خالص پنجابی پہلوانوں والی پگڑی باندھتے تھے ۔ لیکن غور سے دیکھا تو وہی تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 44 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میں نے کہا ’’آئیے تشریف رکھیے اور بتائیے کہ کس طرح تکلیف کی ‘‘
کہنے لگے ’’ آپ کو ایک تکلیف دینے آیا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے ۔ میں پرانے زمانے کا آدمی ہوں اور پہلے دربار گولڑہ شریف میں آپ کی ایک غزل گاتا رہا ہوں جو مرحوم پیر صاحب بہت پسند کرتے تھے۔ وہ غزل تھی:
تمہا ری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہا جاتے
میں نے کوئی دس سال تک یہ غزل گائی ہے اور مرحوم پیر صاحب کی خوشنودی حاصل کی ۔ اب مجھے خیال آیا ہے کہ آپ سے کچھ اور چیزیں لے لوں اور گاؤں ‘‘
میں نے کہا ’’ یا حضرت! اب میں آپ کو جوبتانے والا ہوں‘ آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر سنیے کہ میں ہری پور میں رہنے والا ہوں ۔موضع شاہ محمد آپ جایا کرتے تھے اور آپ کا ایسا حلیہ ہوا کرتا تھا اور آپ یہ گایا کرتے تھے‘‘
وہ میری باتیں سن کر اچھل پڑے اور کہنے لگے ’’ آپ نے اس زمانے میں مجھے سنا اوردیکھا ہوا ہے‘‘
میں نے کہا ’’ میں آپ کا بڑا قدر دان اور فین ہوں‘‘
سن کر بڑے خوش ہوئے اور انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔میں نے کہا ’’ میری اپنی تمنا تھی کہ آپ میرا کلام گائیں لیکن اس زمانے میں میرا کلام اس قابل تھا ہی نہیں۔ اب اگر قدرت نے موقع دیا ہے تو میں آپ کی خدمت کروں گا‘‘
چنانچہ میں نے انہیں کچھ چیزیں دیں۔ لیکن ان کا زمانہ اب گزر چکا تھا ۔ بہت ہی بوڑھے ہو چکے تھے۔ اور اب گانے کا اندازبھی بدل چکا تھا۔ اس لئے میرا اکیلا کلام بھی ان کی مدد نہ کر سکا۔ بہرحال مجھے ان کے آنے سے جو خوشی ہوئی وہ کبھی کبھی حاصل ہوتی ہے۔
بمبئی کا مشاعرہ
شعروں کی مقبولیت سے شاعروں کو راحت ہوتی ہے البتہ بعض اوقات راحتوں کی شکل بدل جاتی اور ہوتا یوں ہے کہ داد تو ملتی ہے لیکن بڑی پریشان کر کے۔ مدراس کے ایک مشاعرے پر گیا تو واپسی پر ’’مغل اعظم ‘‘ فلم کے پروڈیوسر کے آصف نے مجھے بمبئی میں روک لیا۔ اس وقت ان کی فلم ’’محبت اور خدا ‘‘ بن رہی تھی اور وہ اس کے گانے مجھ سے لکھوانا چاہتے تھے۔ ان کے ایک ہندو دوست نے میری دعوت کی جس میں چند ایک دوسرے شاعروں کو بھی مدعو کیا گیا ۔
کھانے کے بعد شعری نشست ہوئی او ر عین اس وقت جب میں نے اپنا کلام سنانا شروع کر چکا تھا تو ایک معزز شخص جو کہ لباس سے سیٹھ لگتا تھا اور جس کی سب عزت کررہے تھے۔ وہاں آیا ۔ میں نے ابھی ایک یہ شعر پڑھا تھا لہذا غزل پھر سے پڑھنا شروع کر دی ۔ غزل یہی تھی:
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہا ں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جانے
جوں جوں میں پڑھتا جا رہا تھا ان صاحب کے چہرے پر غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ جب مقطع ختم ہوا تو چونکہ اس آخری شعر میں میرا نام نہیں تھا تو وہ شخص مجھ سے مخاطب ہوا ’’ صاحب یہ آپ کی اپنی غزل ہے ؟ ‘‘
میں نے کہا’’ جی ‘‘
کہنے لگے ’’نہیں آپ جھوٹ بولتے ہیں ۔یہ تو قتیل شفائی کی غزل ہے‘‘ کے آصف بھی ہنسے اور مجھے بھی سمجھ آگئی کہ یہ شخص مجھے کیوں گھور رہا تھا۔ چونکہ وہ دیر سے آیا تھا اور اس نے اناؤنسمنٹ نہیں سنی تھی اس لئے وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ کوئی بمبئی کا شاعر ہے اور قتیل شفائی کی غزل اپنے نام سے پڑھ رہا ہے ۔
کے آصف نے کہا’’ سیٹھ جی یہ قتیل شفائی ہی ہیں۔ اور پاکستان سے تشریف لائے ہیں‘‘ یہ سن کر اس شخص نے بہت معذرت کی اور اگلے دن اپنے ہاں دعوت بھی رکھی۔
جب میں اگلے روز اس دعوت میں شرکت کیلئے گیا تو وہ پھر بہت معذرت کرنے لگا۔ میں نے کہا’’ آپ نے تو مجھے بہت بڑی داد دی ہے‘‘ تب کہیں جا کر وہ شخص کچھ مطمئن ہوا۔
انڈیا میں میرے بہت سے کلام کی چوری کی وجہ سے میرا نام کافی مشہور ہو چکا تھاچنانچہ جب میں وہاں گیا توکے آصف کے علاوہ اور بھی بہت سے پروڈیوسر وں نے اپنی فلموں کے لئے مجھ سے گیت لکھوانے کی خواہش ظاہر کی۔ جب اس طرح کوئی غیر ملکی آکر پہلے سے وہاں موجود لوگوں میں دراڑ پیدا کر دے تو محسوس تو ہوتا ہے ۔ لیکن میرا معاملہ یہ نہیں تھا کیونکہ میں وہاں عملاً جا کر کوئی گڑ بڑ نہیں کر رہا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ مدارس سے واپسی پر بمبئی میں وشوامتر عادل کے گھر میں میں ساحر لدھیانوی کے ساتھ دیوالی کی رات کی وجہ سے چلا گیا ۔
میرا مقصد تو دوستوں کو ملنا تھا اور ساحر کو پتا تھا کہ وہاں بہت سے لوگ دیوالی کی وجہ سے اکٹھے ہوں گے اس لئے وہ مجھے وہاں ساتھ لے گیا تھا ۔ چنانچہ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔ جن میں میں کیفی اعظمی‘ سردار جعفری ‘ وشوا متر عادل اور کے آصف بھی شامل تھے۔ کے آصف میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’ مولانا آپ نے اپنے آنے کی اطلاع ہی نہیں دی اور ہمیں تو آپ کی وہ غزل چاہیے تھی۔
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
میں چونکہ بیوی کو دہلی میں ساحر ہوشیار پوری کے گھر چھوڑ آیا تھا‘ اس لئے جلد واپس جانا چاہتا تھا لیکن کے آصف کے اصرار پر مجھے وہاں رکنا پڑا۔ میں جب ان کی فلم کے گانے لکھ رہا تھا تو ایک طوفان مچ گیا اور اعتراض ہوا کہ یہ غیر ملکی یہاں گانے نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ ہماری یونین کا ممبر نہیں ہے ۔ مجھے کچھ اور پروڈیوسروں کی طرف سے بھی ایڈوانس پیسے مل چکے تھے۔ اس لئے میں کچھ پریشان ہوا۔
اس وقت وہاں رائٹرز یونین کے سیکرٹری قمر جلال آبادی تھے جو میرے لاہور کے زمانے کے دوست تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پا س یونین کی ممبر شپ نہیں ہے تو انہیں ممبر شپ دے دیتے ہیں۔ انہوں نے خلوص دل سے چاہا کہ میں ممبر بن جاؤں۔ چنانچہ میں نے ان کے کہنے پر درخواست دے دی تو انہی لوگوں نے یہ پوائنٹ کھڑا کر دیا کہ کوئی غیر ملکی آدمی اس یونین کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اب وہاں دو گروپ بن گئے۔ ایک وہ گروپ تھا جو بڑے بڑے پیسے لے کر فلموں پر چھایا ہوا تھا اور دوسرا چھوٹا گروپ جس میں شامل افراد کو کم معاوضہ ملتا تھا اور کام بھی کم ملتا تھا۔ یہ دوسرا گروپ میرے وہاں جانے سے بہت خوش تھا ۔ اس لئے کہ ان کی بہت حق تلفی ہو رہی تھی۔
اس دوسرے گروپ نے میرے حق میں کہا کہ ان لوگوں کو اعتراض کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے جبکہ یہ خود ایک شخص کی چوری کرتے ہیں اور جب وہ خود آتا ہے تو اسے کام کرنے نہیں دیتے اور ممبر شپ نہیں دیتے ۔ اس زمانے میں میری ایک بیٹی کو گردن تو ڑ بخار ہوا تھا اور میں اس کے علاج کیلئے جگہ جگہ تدبیر کر رہا تھا۔ اور بمبئی جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں ایک ڈاکٹر سنہا تھے جو ہومیو پیتھک علاج کرتے تھے اور میں ان سے مشورہ بھی کرنا چاہتا تھا۔ یہ بات اس یونین کو بھی معلوم تھی اور انہوں نے ازراہ تضحیک میرے لئے بیس ہزار روپے کی امداد منظور کی اور کہا ’’ ہم ممبر شپ تو نہیں دے سکتے لیکن یہ عطیہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ شاعر برادری سے ہیں اور بیٹی کا علاج کروالیں‘‘
مجھے جب اس کا پتا چلا تو میں نے اس پر احتجاج کیا اور کہا ’’ میں یہاں بھیک مانگنے کیلئے نہیں آیا اور نہ ہی میں آپ کی فلموں میں گانے لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ اپنے پروڈیوسر وں سے پوچھئے کہ وہ کیوں مجھ سے گانے لکھوانا چاہتے ہیں ‘‘
جب میرا یہ خط انہیں پہنچا تو ایک گروپ نے ان سے کہا کہ انہوں نے بالکل ٹھیک لکھا ہے ‘ آپ دستور میں ترمیم کیجئے اور ہم انہیں اپنا ممبر بنائیں گے ۔ چنانچہ یونین کی طرف سے مجھے ممبر شپ نہ دینے کا فیصلہ واپس لیا گیا ۔ میں نے سوچا کہ میں کس مصیبت میں پڑگیا ہوں اور واپس چلا آیا۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں