کیا نئے پاکستان کو نیا میڈیا بھی چاہئے؟

کیا نئے پاکستان کو نیا میڈیا بھی چاہئے؟
کیا نئے پاکستان کو نیا میڈیا بھی چاہئے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


18اگست 2018ء پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں ایک واٹر شیڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔۔ کہا جا رہا ہے (اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں) کہ ایک ’ نیا پاکستان‘ وجود میں آ چکا ہے۔لیکن اس کی ابتداء ایک ’’ہنگامے‘‘ سے ہوئی ہے۔ جب عمران خان17اگست کو قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان منتخب ہو چکے تو وہ ڈی فیکٹو وزیراعظم بن چکے تھے، ڈی جیور البتہ اگلے روز بننا تھا۔ اس دن جمعتہ المبارک بھی تھا لیکن اس روزاسمبلی میں جو ہنگامہ گستری ہوئی وہ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ ویسے یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تھی۔ پہلے بھی کئی بار اسمبلی کے اجلاسوں میں اس طرح کی ہلڑ بازیاں ہو چکی ہیں۔ اور پاکستان پر ہی کیا منحصر ہمارے ہمسائے میں کئی بار اسمبلیوں میں کرسیاں چلیں اور گھونسوں اور مُکوں کا تبادلہ ہوا۔ یہی کچھ جاپان میں بھی کئی بار دیکھا گیا اور روس میں تو ایک سے زیادہ بار باقاعدہ گتھم گتھا ہونے کے مناظر نے اسمبلی کو باقاعدہ ایک اکھاڑہ بنا دیا۔ مَیں جمعہ کی اس شام کو اسمبلی میں ہونے والی تقاریر کی جگالی کر کے آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا کہ یہ کام ہمارا میڈیا بحسن و خوبی انجام دے چکا ہے اور ’’امید‘‘ ہے کہ آئندہ بھی بار بار اس کا حوالہ دیا جاتا رہے گا۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ 18 اگست کی یہ تبدیلی کوئی روایتی تبدیلی نہیں۔ خان صاحب کسی جاگیردار، کارخانہ دار یا ساہوکار کی اولاد نہیں۔ اُن کا خاندان سیاسیات سے ہمیشہ الگ تھلگ رہا ہے۔ اگر ان کے کسی بزرگ نے تقسیم برصغیر سے پہلے کسی سیاسی تقریب میں حصہ بھی لیا تھا تو وہ تخلیقِ پاکستان کی نوبل کاز کے لئے تھا۔اور نہ ہی عمران خان کسی جرنیل کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئے ۔ لیکن ان کو آج وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد بھی ’’کرکٹر سے مبدّل بہ وزیراعظم‘‘ (Cricketer-turned Politician) کے ’’لقب‘‘ سے نوازا جاتا رہاہے۔ بندہ پوچھے کیا نواز شریف صاحب کو بھی کبھی کسی نے (Factory owner-turned Politician) لکھا تھا یا کسی نے حضرت قائداعظمؒ کو (Lawer-turned Politician) کہہ کر بھی پکارا تھا؟۔۔۔ اگر جواب نفی میں ہے تو عمران خان کو ’’کرکٹر ٹرنڈ وزیراعظم‘‘کیوں کہا جاتا ہے۔ مَیں دُنیا کی دوسری جمہوری حکومتوں کی مثالیں نہیں دوں گا کہ وہاں تو فلم ایکٹر اور جاسوس وغیرہ بھی امریکہ اور روس کے صدر بنتے رہے ہیں۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ اس ’’لقب‘‘ میں جو ’’پوشیدہ تضحیک‘‘ کا عنصر پایا جاتا ہے، اس سے کہنے اور لکھنے والے کا خبثِ باطن عیاں ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔ خدا نے اگر ایک متوسط خاندان کے ایک شرمیلے(Shy) سے لڑکے کو پہلے ایک کرکٹ سٹار اور پھر ایک جوہری ملک کا وزیراعظم بنا دیا تو اس ’’لڑکے‘‘ میں کوئی نہ کوئی ’’بات‘‘ تو ہو گی۔۔۔۔غالب نے اسی لئے کہا تھا کہ جوبات مَیں مُنہ سے نکالتا ہوں وہی پھولوں کی خوشبو بن جاتی ہے:
وہی اک ’’بات‘‘ ہے جویاں نفس واں نکِہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے، مری رنگیں بیانی کا
پاکستانی قوم کو تو اپنے اس سپوت پر فخر ہونا چاہئے کہ اس نے جہدِ مسلسل سے یہ مقام حاصل کیا۔اس کے راستے میں شکستیں بھی آئیں، ناکامیوں کا سامنا بھی ہوا، طعن و تشنیع کے ڈونگرے بھی برسے۔۔۔ لیکن مسلسل 22سال کے نشیب و فراز کے بعد آخر کار اس کو منزلِ مراد مل ہی گئی۔
الیکشنوں کے بعد جب سے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکامات روشن نظر آ رہے تھے تب سے ان کے مستقبل کی کار گزاریوں پر لے دے شروع ہو گئی تھی۔ اور آج جب ان کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلا دن (Working Day) ہے تو اس ’’لے دے‘‘ کی لَے بلند سے بلند ترہو رہی ہے۔۔۔ یہ عجیب قسم کا پاکستانی کلچر ہے کہ ہم کبھی ایک ہدف پر متحد نہیں ہوتے۔۔۔ ہم کیسی قوم ہیں؟
مجھے اندیشہ یہ بھی ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں ’’بہ فیضِ میڈیا‘‘ ہم اس قسم کی حرکات کرتے رہیں گے۔میڈیا ورلڈ میں کسی ٹیلی ویژن کی مشین رواں رکھنے کے لئے جس ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے اس کا نام یا تو رشوت ہے یا اشتہارات۔۔۔ تیسری قسم کا کوئی اور ایندھن میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ ماضی میں ہمارے بعض سیاست دان پورے کا پورا ’’چینل‘‘ خرید لیتے رہے ہیں اور پھر اس ٹی وی چینل کی دیکھا دیکھی دوسرے چینل بھی اسی دوڑ میں شریک ہو جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ میں ٹی وی اینکروں کی ایک مخصوص ’’کھیپ‘‘ بھی پیدا ہو چکی ہے جو وقفے وقفے سے چینل بدل بدل کر منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ان میں خواتین بھی ہیں اور مرد حضرات بھی۔۔۔مجھے ان کی طلاقتِ لسانی، موضوعِ زیر بحث پر ان کی گرفت اور طرزِ استدلال پر کبھی شک نہیں گزرا۔لیکن اگر وہ اس ’’خوبی‘‘ کو ملک و قوم کی خدمت کے لئے وقف رکھیں تو دُنیا کے ساتھ ساتھ ان کا دین بھی سنور سکتا ہے۔لیکن وہ تو چڑھتے سورج کی پرستش کرتے ہیں۔۔۔ ان کی اکثریت کو تین کام کرنے ہوتے ہیں۔۔۔اول پاکستان کی گزشتہ سیاسی تاریخ کو از بر کرنا ۔۔۔دوم بحث و تکرار میں ید طولیٰ حاصل کرنا اور۔۔۔ سوم اپنے پروڈیوسر/مالک کے احکامات کی من و عن بجا آوری ۔۔۔
مجھے ڈر ہے کہ میڈیا کی اگر یہی روش جاری رہی تو یہ ’’نئے پاکستان‘‘ کے لئے کوئی نیک فال نہیں ہو گی۔چینل مالکان سے لے کر اینکر حضرات و خواتین کو اب ایک نیا روپ دھارنا اور نیا سلیقۂ کلام اختیار کرنا ہو گا۔ایک ایسا روپ اور سلیقہ جو ان کی گفتگو سے بھی ٹپکتا معلوم ہو۔۔۔ یہ فارمولا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو برابر وقت دینا چاہئے، دُنیا کے کسی اور ملک کے میڈیا کلچر میں نہیں پایا جاتا۔ آپ دُنیا بھر کے ای(E) اور پرنٹ میڈیا کو صرف ایک ماہ تک دیکھ اور پڑھ لیں،آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ تعمیرِ قوم و وطن ان لوگوں کا آدرش اور دفاعِ وطن ان کا نصب العین رہا ہے۔ دفاع کا یہ مطلب نہیں کہ آپ شمشیر بکف ہو کر میدان میں کود جائیں بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور تجزیوں کا مرکز و محور وطن کا استحکام اور افرادِ قوم کی خوشحالی ہونا چاہئے۔
مَیں ایک طویل عرصے سے مغرب کے میڈیا کا قاری اور ناظر ہوں۔ لیکن جو چلن (یابدچلنی؟) پاکستانی میڈیا کے کئی چینلوں میں طرۂ امتیاز سمجھی جاتی ہے وہ وہاں بالکل نا پید ہے۔۔۔ شائد وہاں کے عوام اپنے ان صحافیوں کو کنڈم کرنے میں دیر نہیں لگاتے جو ان کے ملک کی تخریب و تذلیل میں بالواسطہ کوشاں رہتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ کا سب سے بڑا دشمن پہلے سوویت یونین تھا اور پھر چین بن گیا۔ اب یہ دونوں ممالک، مغربی میڈیا کے اولین اہداف بن چکے ہیں۔ آپ انگریزی زبان کے کسی بین الاقوامی سطح کے اخبار یا ٹی وی چینل کو آن کر کے دیکھ لیں اس کا دو تہائی زبانی یا تحریری مواد پہلے چین کی برائیاں کرنے سے لبریز ہوگا اوریا پھر روس کے لتّے لے رہا ہو گا۔ امریکہ اگر شمالی کوریا، ایران اور پاکستان کا مخالف ہے تو سارا امریکی میڈیا یک زبان اور یک قلم ہو کر اپنے صدر اور اپنے دوسرے اعیانِ حکومت کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن اگر اگلے روز امریکہ اپنا ٹارگٹ تبدیل کر لے تو سارا میڈیا بھی فوراً اپنا قبلہ تبدیل کر لیتا ہے۔اس کے لئے طرفین کے ہمنوا صحافیوں یا دانش وروں کو دعوتِ مبارزت نہیں دی جاتی۔
تحریک انصاف نے جس نئے پاکستان کا ڈول ڈالنے کا عزم ظاہرکیا ہے وہ اگر عوام کے حق میں ہو تو میڈیا کو اس کی حمایت کرنی چاہئے ۔۔۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ بجائے حمایت کرنے کے ہمارے ٹاک شوز کے اینکرز، حسبِ معمول دونوں فریقوں کے ترجمانوں کو بلُا لیں گے۔۔۔ ایک کا منہ مشرق کی طرف ہو گا تو دوسرے کا مغرب کی طرف۔۔۔ ایک کو آسمان کا رنگ نیلا نظر آئے گا تو دوسرے کو سرخ دکھائی دے گا۔۔۔ایک اگر دن کہے گا تو دوسرا تارے دکھانے کی کوشش کرے گا۔۔۔ اور ایسے میں خود اینکر دونوں کی ہاں میں ہاں ملائے گا/ گی تاکہ ’’انصاف‘‘ کا ترازو برابر رہے!
کم ہی چینل ایسے ہوں گے جو غیر جانبدار ہوں گے۔۔۔ (اس کی وجوہات بہت سی ہیں میں ان کی طرف نہیں جاؤں گا) اکثر چینل کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے وظیفہ خوار بھی ہیں۔ یہی مرض پرنٹ میڈیا کو بھی لاحق ہے۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، قومی مفاد کو اولیت دی جانی چاہئے۔ نئے پاکستان کے لئے نئی میڈیا پالیسی کی از حد ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ’’پیمرا‘‘ کی طرف سے کوئی ’’عمران خانی احکامات/ ہدایات‘‘ ایشو کی جائیں، مالکان کو خود ہی احساس کرلینا چاہئے کہ وہ نئی صورتِ حال میں اپنی کوئی موزوں SOPتشکیل دے لیں۔ماضی میں بعض میڈیا ہاؤسز نے اپنی ایمپائرز بھی بنا رکھی تھیں، قارئین کی اکثریت یہ سب کچھ جانتی ہے۔ لیکن چونکہ اب ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے اس لئے ان کو اس ایمپائر بلڈنگ میں تبدیلی لانی پڑے گی۔
جو حضرات ہر شام ٹاک شوز میں آکر اپنی اپنی پارٹی کا منشور لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر 40,35 منٹ تک اس کی ترویج و اشاعت میں تن من اور ’دھن‘ کی بازی بھی لگا دیتے ہیں ان کو اب اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی۔
قومی اسمبلی میں پارٹی مینڈیٹ کی تمام سطوح اور تمام پہلووں کی خبر اب ہر پاکستانی کو ہو چکی ہے۔ ایک بات جو چند میڈیا چینلوں کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ 10,8 برسوں میں عوام کو جو سیاسی شعور دیا ہے اس کا اعتراف کرنا چاہئے ہر چند کہ اس شعور اور عرفان میں خودناظر، سامع یا قاری کی اپنی کاوش اور اپنا نقط�ۂ نظربھی شامل ہوتا ہے۔ اور اب یہ تبدیلی جس کا آغاز ہونے جا رہا ہے، اس کی وجہ بھی وہی نیاشعور اور نیا عرفان ہے جو ’’براستہ میڈیا‘‘ لوگوں کے ذہنوں میں اتارا جانا چاہئے ۔۔۔یا وہ خود سیاہ و سفید کو پرکھ کر کسی ایک رنگ کو منتخب کر لیں گے۔
مَیں مستقبل میں پاکستانی معاشرے کے کئی شعبوں میں کئی تبدیلیاں آتی دیکھ رہا ہوں۔ ٹی وی چینلوں پر روزانہ نمودار ہونے والے شیخ سعدیوں اور شیخ چلیّوں کو اپنا وہ ناصحانہ انداز ترک کرنا ہو گا جو وہ ہر روز آ کر کسی نہ کسی ٹاک شو میں بگھارنے لگتے ہیں۔۔۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں نے عمران کو فلاں مشورہ دیا اور وہ نہ مانا اور یہ اس کی ناتجربہ کاری اور دور اندیشی کے فقدان کا مظہر ہے، وہ اکھڑ اور ضدی طبیعت کا آدمی ہے، کسی کی نہیں سنتا اور نقصان اٹھاتا ہے ۔۔۔ کوئی بڑ ہانکتا ہے کہ میں نے آج صبح ہی شہباز شریف کو فون کیا ہے اور اس کو سمجھایا ہے کہ فلاں حرکت سے باز آ جاؤ۔۔۔ کوئی اپنے سابقہ سیاسی تجربے اور رکنِ اسمبلی ہونے کی حسرت انگیز دِنوں کی یاد تازہ کرتا ہے اور حکم لگا دیتا ہے کہ فلاں اونٹ فلاں کروٹ بیٹھنے والا ہے۔
خدا کے لئے ایسی خود ستائیوں اور خود نمائیوں سے گریز اور پرہیز کریں۔ اب ان کا وقت گزر چکا۔ اب کوئی نئی قسم کی ’’طرح‘‘ ڈالنا ہو گی۔ اقبال نے تو خدا کو بھی کہہ دیا تھا:
طرحِ نو افگن کہ ماجدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانۂ امروز و فردا ساختی؟
]کوئی نئی طرح ڈال کہ ہم آدم زاد جدت پسند واقع ہوئے ہیں۔۔۔ یہ کیا روز و شب کا حیرت خانہ بنا رکھاہے تونے؟[

مزید :

رائے -کالم -