اندھیروں میں ڈوبے بلوچستان کے دیہات
بلوچستان میں پسماندگی کے اندھیرے آپ کو دور افتادہ دیہاتوں میں بہت گہرے اور عام ملیں گے جہاں ترقی کا سورج کب طلوع ہوگا،اس بارے صرف امیدیں ہی قائم کی جاسکتی ہیں ۔
ہم ایک ایسے سفر کی طرف جارہے تھے جس کی آخری منزل واپس میرے لئے میرا جھونپڑی نما گھر تھا۔ ویسے بچپن گاؤں میں گزار کر مجھے ہر گاؤں اپنا لگتا ہے جہاں ہم بچے مسقبل سے بے خبر ایک ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے تھے۔باپ سمندر کا پیٹ چیر کر ہمارے لئے دو وقت کی رزق کا بندوبست کرتا تھا۔ نانا کی کاوشوں سے بنائے گئے پرائمری سکول میں دوسرے بچوں کی طرح ہم بھی الف انار اور ب بکری سیکھا کرتے تھے۔ اب بچپن کا سفر جوانی کی حد کو پار کرچکا تھا۔ سمندر کے ساتھ جو رشتہ ماضی سے جڑا تھا اب اسی رشتے کو قلم کا سہارا بھی ملا تھا۔
اب ہماری سفر شروع ہوچکا تھا۔ گاؤں،دیہاتوں اور جنگلوں کا سفر دشوار سہی مگر کئی یادوں کے ساتھ واپسی کا منظر میرے ذہن میں براجمان تھا۔ سو سفر شروع ہوتے ہی کچے اور دشوار گزار راستے ہمارے منتظر تھے۔ نیٹ ورک ایریا ختم ہونے سے چند لمحے اپنے گھر کو یہ بتاچکاتھا کہ رات شاید ہم لیٹ پہنچیں گے۔ پہاڑوں کی مایوسی کو دیکھ کر میں خالی میدانوں کو دیکھتا رہا جہاں ہر راستے کو کچا اور دشورا گزار دیکھا۔ ہر طرف کچے اور دشوار گزار راستے تھے۔ جہاں بھی جاتے ،صحت عامہ کی سہولت دستیاب نہیں تھیں، منشیات کے عادی نوجوانوں کو دیکھا۔ البتہ کچھ گاؤں میں پرائمری سکول کی بلڈنگز نظر آئیں۔سمجھ آیا کہ یہاں کے لوگ سکول کو اپنی پراپرٹی نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ایک گاؤں میں سکول کے دو کلاس رومز تھے اور دونوں کے دروازے غائب تھے۔ طویل خشک سالی کے آثار وہاں کے درختوں کو دیکھ کر نظر آئے۔
بچپن میں جب بارشیں نہیں ہوتی تھیں تو ہم پانچ سے دس کلومیٹر دورسے پانی لاتے تھے۔ خواتین صبح سویرے اٹھ کر کنوؤں میں پانی لانے جاتی تھیں۔ اندیشہ ہوتا دن کی روشنی میں کنوؤیں خشک نہ پڑ جائیں۔ یہاں کے زیادہ تر گاؤں اور دیہاتوں میں صاف پانی کی فراہمی کا گاؤں والوں کی زبانی سنکر خوشی ہوئی۔ ہمارا کاروان چونکہ ہر گاؤں کے لوگوں سے مل رہا تھا اور انکے مسائل انکی زبانی سن رہا تھا۔ لوگوں میں اپنائیت کا جذبہ کبھی اجنبیت میں بدل جاتا تو کبھی لوگوں ایسی ایسی ڈیمانڈزکرتے کہ مجھے ہنسنا پڑتا۔
دن کی روشنی میں شروع ہونے والے سفر میں اب سورج بھی غروب ہونے والا تھا۔ کچے اور ناہموار راستوں کا سفر طے کرتے کرتے ہم ایک گاؤں پہنچ چکے تھے۔ یہاں پہنچ آکر دلی تسلی اس لئے ہوئیکہ درجن بھر گاؤں کے سفر کے بعد یہاں کے لوگ پہلی بار ایک پرائمری سکول کی ڈیمانڈ کررہے تھے۔ یہاں کے بچوں کی آنکھوں میں ایک روشن مسقبل کا ادھورا خواب تھا۔ یہاں کے نوجوانوں کو دیگر علاقوں کی نسبت اسلئے زیادہ شعور یافتہ پایا کہ وہ صرف تعلیم کی ڈیمانڈ کررہے تھے۔ویسے بھی ریاست کے آئین کے آرٹیکل 25۔A کے مطابق تعلیم مفت اور ہر شہری کے لئے حاصل کرنا فرض ہے۔
رات شروع ہوتے ہی ہم اپنی آخری منزل تک پہنچ چکے تھے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ گاؤں نما شہر نظر آرہا تھا۔ محلات کی دنیا نہ سہی مگر یہ محل نما مکانات ویران نظر آرہے تھے۔ میری شدید خواہش تھی کہ اس جنت نظیر گاؤں کو دن کی روشنی میں دیکھ سکوں۔ جو کہ ادھورا خواب رہ گیا۔ یہاں نوجوانوں کو باقی گاؤں سے زیادہ سیاست اور سماج سے دلچسپی تھا۔ وجہ تو ظاہر ہے کہ ماضی میں یہ گاؤں ہمارے سیاست کا فیصلہ کرتا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں جانے کے لئے یہاں کی چند شخصیات کا آشیرباد ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہاں بھی ترقی کے آثار کافی نظر آرہے تھے۔ کچے اور ناقابل سفر روڈ، پانی تو قدرتی چشموں سے مل رہا تھا۔ ایک ڈسپنسری بغیر ڈاکٹر کے ارد و نواح کے مکینوں کے علاج و معالجہ کا واحد مرکز تھی۔
سو رات کا اندھیرا اب شروع ہوچکا تھا اور ہمیں بھی واپس اپنی منزل کی طرف آنا تھا۔ رات کی سفر میں ہمارا روٹ بھی تبدیل ہوچکی تھی کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دوسرا روڈ جو بن رہا ہے اسکا سفر بہتر ہے۔ اب ہم ایک نئی سڑک پر سفر کررہے تھے جوکہ زیر تعمیر تھا۔ بہت جلد ہم کوسٹل ہائی وے تک پہنچ گئے۔رات گھر پہنچتے ہی مجھے نیند نہیں آرہی تھی بلکہ وہاں کے لوگوں کے دکھ بھرے حالات سن کر میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ جس جس گاؤں کی داستان خود سن کر آیا تھا ان کے خوابوں کوتعبیر دینے میں ابھی بہت وقت چاہئے ہوگا ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔