اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 19
بادشاہ نے سرد اور شیریں مشروب پیش کیا جس میں سفید گلاب کی پنکھڑیاں تیر رہی تھیں۔ پھر اس نے مجھ سے تشریف آوری کی وجہ سے دریافت کی تو میں نے گردن بلند کرتے ہوئے کاہن اعظم کے بھرپور وقار سے کہا۔
’’ سر زمین سندھ کے مہر عالم تاب بادشاہ عالی قدر ! میں اس وقت دیوی اشتر اور دیوتا بعل کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے بڑی نیاز مندی سے پوچھا کہ دیوی اشتر اور دیوتا بعل کا کیا حکم ہے ؟ میں نے پہلے سے بھی زیادہ باوقار اور بار عب آواز میں کہا۔
’’ اے بادشاہ کل دیویوں کی دیوی اوہنی کا مقدس دن ہے ۔ اس دن کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دیوی اشتر اور دیوتا بعل نے میرے وساطت سے تمہیں حکم دیا ہے کہ گردن زدنی رقاصہ روکاش کو کل کے مقدس دن رات ان کے حضور رکھا جائے تاکہ اس سے پہلے کہ یہ مرتد مجرمہ دوزخ کے شعلوں کے سپرد ہو دیوی دیوتا ساری رات اس کے منحوس جسم پر لعنت ملامت بھیج سکیں۔ اس لئے کہ اگر اس کے واصل جہنم ہونے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہو تو وہ بھی پوری ہوجائے۔‘‘
بادشاہ ایک لمحے کے لئے کچھ بے چین سا ہوا۔ میں نے فوراً ہی دوسرا وار کر دیا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ اور دیوی اشتر اور دیوتا بعل نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان کے حکم پر عمل کیا گیا تو بادشاہ اپنے ملک پر ہمیشہ شادمانی و کامرانی سے حکومت کرتا رہے گا اور اگر ان کی حکم عدولی کی گئی تو اس شہر پر ناگہانی بلاؤں کا نزول شروع ہوجائے گا۔‘‘
بادشاہ نے فوراً بڑی تکریم و سپاس گزاری سے کہا۔
’’ میری کیا مجال ہے کہ میں دیوی دیوتا کی حکم عدولی کروں لیکن میں چاہوں گا کہ روکاش رقاصہ کو پابہ زنجیر رکھا جائے کیونکہ وہ اب میری نہیں بلکہ میری رعایا کی مجرمہ ہے او روہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے شہر کے چوراہے پر قتل ہوتے دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اب یہ عورت عوام کی امانت ہے۔ میں چاہوں گا اس کی زبردست انتظامات کے تحت حفاظت کروں۔‘‘
میں چانتا تھا کہ بادشاہ یہ سب کچھ رعایا کی خوشنودی طبع کے لئے نہیں بلکہ اپنی سلطنت کو بغاوت کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے کر رہا ہے۔ میں نے کہا:
’’ مجرمہ روکاش مقدس مندر کے دروازے تک پابہ زنجیر ہو کر جائے گی مگر مندر میں دیوتا بعل اور دیوی اشتر کے حضور اس کی زنجیریں کھول دی جائیں گی۔ پھر دیوی دیوتا خود اس کے ہاتھ پاؤں میں نظر نہ آنے والی زنجیریں پہنا دیں گے۔ اس لئے کہ معبد بعل میں کسی فانی انسان کا دنیاوی زنجیروں میں بند کر چلے آنا ان کی توہین ہے۔ ‘‘
بادشاہ لاجواب ہوگیا۔ میں اپنے مقصد میں کامیاب واپس لوٹا۔ میں نے رات الکندہ کو اپنی پہلی کامیابی سے آگاہ کردیا۔ دن چڑھا تو میں نے اپنے مخبر خاص کو حکم دیا کہ وہ آدھی رات کو مندر کے خفیہ دروازے کے باہر فصیل شہر کے مشرقی کنارے پر دو تازہ دم گھوڑوں کو باندھ کر آجائے اور ان پر کھانے پینے کا ایک ماہ کا سامان بھی لاد دیا جائے۔ ان کاموں سے فارغ ہوتے ہوئے شام ہوگئی۔ میں نے مقدس اوہنی کے متبرک جشن کی تیاریاں رکھی چاندی کی سامگریوں میں عود ولوبان سلگنے لگے۔ دیوداسیوں نے دیوی اوہنی کی مقدس رات میں رقص کے لئے آراستہ ہونا شروع کر دیا۔ پجاریوں اور دیوداسیوں میں سرگوشیاں بھی ہو رہی تھیں۔ اس لئے کہ آج رات ان کی دیرینہ ساتھی اور شاہی رقاصہ مظلوم روکاش آنے والی تھی جس کا سر ایک دو روز میں قلم کیا جانے والا تھا۔ میں نے مقدس ریشمی لباس پہن کر اپنے کپڑوں کو عطر خاص میں بسایا اور سونے کے تخت پردیوی اشتر اور دیوتا بعل کے سامنے چبوترے پر آکر بیٹھ گیا۔ میرے دس سے ان بتوں کی مصنوعی اور خود ساختہ ہیبت کا اثر زائل ہوچکا تھا اور میں کاہن اعظم کی نفسیات سے آزاد ہو کر مصر کے شاہی خاندان فراعنہ کے ایک فرد کی حیثیت سے آزاد ہوچکا تھا۔ مصر میں بھی میرا دل کبھی بتوں کی پوجا کی طرف مائل نہیں ہوا تھا۔ میں ہمیشہ سے مظاہر فطرت کا پرستار رہا تھا اور ان ہی میں خدائے واحد کی حاکمیت و جبروت کا نظارہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں تاریخ کے ادوار میں عہد بہ عہد سفر کرتا ہوا عباسی خلفا کے دور میں پہنچا تو قرآن کی حقانیت اور نبی آخر الزماں ﷺ کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور توحید پرستی کا شعار اختیار کیا۔ اس وقت دیوتا بعل اور دیوی اشتر کے بتوں کے آگے استھان پر بیٹھا میں حقارت سے ان بتوں کو دیکھ رہا تھا۔ اگر کوئی جذبہ میرے دل میں اس خیال سے بار بار دھڑک اٹھتا کہ آج رات نازک ادا روکاش موت کے منہ سے نکل کر ہمیشہ کے لئے میری ہو جائے گی اور میں اس کی زندگی کے آخری سانس تک اس سے محبت کرتا رہوں گا۔
معبد بعل میں میری وہ تاریخی رات تھی۔ دیوی اوہنی کی پوجا شروع ہوگئی۔ پجاری بھجن گانے لگے۔ ڈھول سنکھ اور تفیریاں بجنے لگیں۔ دیوداسیوں نے رقص شروع کر دیا۔ دیوی اوہنی کے پتلے کو دیوتا بعل کے قدموں میں سجا دیا گیا جس کو اس کی بیٹی کہا جاتا تھا۔ یہ جشن پوجا رات کے پہلے پہر تک جاری رہا۔ پھر شور بلند ہوا کہ بادشاہ نے پانچ سو تلوار بردار شاہی سپاہیوں کے معیت میں مجرمہ روکاش کو بھیجا ہے اور شاہی دستہ مندر کے دروازے پر کاہن اعظم کا منتظر ہے۔ میرا دل دھرکنے لگا۔ میں سونے کے تخت سے اتر آیا۔ میرا نائب کاہن میرے ساتھ ساتھ تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں نے روکاش کو دیوی دیوتاؤں کے حضور رات بھر لعنت ملامت کے لئے کیوں بلایا ہے لیکن وہ خاموش تھا۔ وہ ایک راسخ العقیدہ بت پرست کافر تھا اور میری رہبانیت پر اسے مکمل اعتماد تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ یہ دیوتاؤں کا حکم ہے تو اس نے سرجھکا دیا۔ ہم مندر کے بڑے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ رقاصہ روکاش پتھر کے فرش پر زنجیروں میں جکڑی کھڑی بے بسی کے عالم میں تک رہی ہے اور اس کے گرد نصف دائرے میں شاہی سپاہی تلواریں سونتے گھوڑوں پر سوار ہیں۔ ہماری آنکھیں چار ہوئیں تو میں نے محسوس کیا کہ رقاصہ روکاش کے خشک ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اسے اس کی بے کسی کی حالت میں دیکھ کر میرے دل کو سخت صدمہ ہو الیکن میں نے اپنے احساسات کو اپنے چہرے سے عیاں نہ ہونے دیا۔ میں نے مصنوعی نفرت و حقارت کی بھرپور نگاہ روکاش پر ڈالی اور شاہی دستے کے سالار سے کہا کہ اس بدنصیب مجرمہ کی زنجیریں کھول دی جائیں جیسا کہ بادشاہ کا حکم ہے۔ کیونکہ وہ مندر میں زنجیریں پہن کر داخل نہیں ہوسکتی۔ اس کی حفاظت کی ذمے داری دیوی اشتر اور دیوتا بعل پر عائد ہوتی ہے اس لئے کہ یہ ان ہی کی مجرمہ ہے۔ سپاہیوں اور دستے کے سالار کو بھی بادشاہ کا یہی حکم تھا کہ قیدی عورت کی زنجیریں مندر میں داخل ہونے سے پہلے کھول دی جائیں اور صبح ہونے تک مندر کے تمام دروازوں اور چھتوں پر ننگی تلواریں ہاتھوں میں لے کر سخت پہرہ دیا جائے۔ سالار نے اشارہ کیا۔ دو سپاہیوں نے آگے بڑھ کر روکاش کے جسم سے زنجیریں اتار دیں۔ میں نے غصیلی آواز میں اپنے نائب کاہن کا حکم دیا۔
’’ اس ناپاک اور دیوتاؤں کی درگار سے روندی گئی عورت کو مقدس بعل کے آگے جا کر لٹا دیا جائے تاکہ دیوی دیوتا اس پر رات بھر اپنی بددعائیں اور ملامتیں نازل کرتے رہیں۔ انہوںے نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔
مین نے محسوس کیا کہ رقاصہ روکاش کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے کہہ رہی ہو کہ مقدس عاطون ! مجھے کم از کم تم سے اس سلوک کی امید نہیں تھی۔ میں تیزی سے مندر میں واپس آکر استھان کے تخت پر بیٹھ گیا۔ نائب کاہن نے دوسرے پجاریوں کی مدد سے روکاش کو اٹھایا اور اسے میرے پاس ہی بعل دیوتا کے بت کے آگے چبوترے پر سیدھا لٹا دیا۔ ساری دیوداسیاں ساکت کھڑی اپنی دیرینہ ساتھی کو چشم پر نم سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی سہیلی روکاش نے محبت کی ہے اور کوئی جرم نہیں کیا۔ ان کے اپنے دلوں میں خدا جانے کن کن نوجوانوں کی محبتوں کے ممنوعہ شجراپنی پھولوں بھری شاخ سے لہرا رہے تھے لیکن وہ اس شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی انہیں ہاتھ نہیں لگا رہی تھیں لیکن رقاصہ روکاش نے آگے بڑھ کر اس پھول کو توڑ کر کھا لیا تھا اور اب وہ اس مقدس بغاوت کے جرم کی پاداش میں اپنا سر قلم کروا رہی تھی۔ میری آنکھیں بند تھیں اور اب میں یوں ہی بے دلی سے اشلوک پڑھ رہا تھا۔ ایک بار میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو رقاصہ روکاش آنسو بھری آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں جذبہ عشق سے لرزاُٹھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )