سپریم کورٹ،6افراد کے 4قاتلوں کی سزائے موت،23سال بعد عمر قید میں تبدیل

سپریم کورٹ،6افراد کے 4قاتلوں کی سزائے موت،23سال بعد عمر قید میں تبدیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 
اسلام آباد(آئی این پی) سپریم کورٹ نے 6افراد کو قتل کرنے کے الزام میں قید 4 ملزمان کی سزائے موت کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ایسے کیسز میں پولیس کو فنگر پرنٹس لینے چاہیے اور اس کیس میں بھی پولیس نے یہی کیا،جھوٹ بول کر ملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جاسکتی۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔سرکاری وکیل نے کیس کی تفصیلات میں بتایا کہ سال 1996 میں ضلع لاہور کے علاقے نارواں کوٹ میں ڈکیتی کے دوران شفیقہ بی بی اور اس کے پانچ بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا جس میں ایک 2 سالہ بچہ بھی شامل تھا۔سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سرفراز، جاوید، ندیم اور محمد یوسف پر شفیقہ بی بی اور ان کے 5 بچوں کے قتل کا الزام ہے اور اس کیس میں ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔جس پر عدالت سے اعتراض کیا کہ اس کیس میں یہ معلومات شامل نہیں ہیں کہ کس ملزم نے قتل میں کیا کردار ادا کیا جب یہ معلوم نہ ہو تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ جائے واردات سے ملزمان کی انگلیوں کے نشانات اور سر کے بال برآمد ہوئے تھے۔جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکلین کو جھوٹے فنگر پرنٹس بنا کر پھنسایا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ایسے کیسز میں پولیس کو فنگر پرنٹس لینے چاہئیں اور اس کیس میں بھی پولیس نے یہی کیا۔عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت ملزمان کی عمر 17 سے 18 سال کے درمیان تھی اور 23 سال کی قید میں وہ اپنی آدھی زندگی جیل میں گزار چکے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جھوٹ بول کر ملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جاسکتی بعدازاں انہوں نے چاروں ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم سنادیا۔
سپریم کورٹ

مزید :

صفحہ آخر -